صورتِ مسئولہ اور آپ کے دیے گئے لنک سے یہ واضح ہے کہ بینک "پی آر سی " اس بات کی صراحت کے لیے جاری کرتا ہے کہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کے پاس یہ رقم باہر ملک سے آئی ہے۔ اب اگر کوئی شخص باہر سے رقم منگواکر کسی ٹرانزینکشن کے لیے "پی آر سی" بنوائے اور پھر بعد میں کسی ایسے شخص کو بیچ دے جو کہ اس اکاؤنٹ ہولڈر کے "پی آر سی " کو اپنی ٹرانزینکشن کے لیے استعمال کرے، یہ سرٹیفیکیٹ آگے بیچنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں اپنی ٹرانزینکشن کا سرٹیفکیٹ آگے بیچا گیا جو کہ در حقیقت کوئی بیچی جانے والی چیز نہیں ہے۔
نیز اگر یہ لینے والا آگے جھوٹ بول کر اس سرٹیفکیٹ کو اپنا ظاہر کرے تو آپ کے لیے اس میں ناجائز کام میں مدد کا گناہ بھی ہوگا، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر لینے والا کسی قسم کا جھوٹ نہ بولے اور اس کو دھوکا دے کر اپنا ظاہر نہ کرے اور قانونًا اس کی گنجائش بھی ہو تو سرٹیفکیٹ دینا تو جائز ہوگا، لیکن اس کا بیچنا جائز نہ ہوگا۔
الفتاوى الهندية (3/ 2):
"فمبادلة المال بالمال بالتراضي، كذا في الكافي".
الفتاوى الهندية (3/ 2):
"ومنها في البدلين وهو قيام المالية حتى لاينعقد متى عدمت المالية، هكذا في محيط السرخسي".
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144203200027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن