بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پروموشن کا مطالبہ کرنا


سوال

 کیا پرموشن کے لیے اپنے باس سے کہنا یا مطالبہ کرنا جائز ہے ؟ مدلل جواب درکار ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر ملازم ترقی کا حق دار ہو تو اس صورت میں وہ کہہ  سکتا ہے، البتہ اگر وہ  حق دار نہ ہو تو باس سے روابط کی بناپر حق دار کا حق مار کر اپنی پروموشن کروانے کی شرعًا اجازت نہ ہوگی۔

معارف القرآن از مفتی محمد شفیع میں ہے:

"حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنا جائز نہیں،  مگر چند شرائط کے ساتھ اجازت ہے:

دوسرامسئلہ (  اجْعَلْنِيْ عَلٰي خَزَاۗىِٕنِ الْاَرْضِ) سے یہ معلوم ہوا کہ کسی سرکاری عہدہ اور منصب کو طلب کرنا خاص صورتوں میں جائز ہے،  جیسے یوسف (علیہ السلام) نے خزائنِ ارض کا انتظام اور ذمہ داری طلب فرمائی ، مگر اس میں یہ تفصیل ہے کہ جب کسی خاص عہدہ کے متعلق یہ معلوم ہو کہ کوئی دوسرا آدمی اس کا اچھا انتظام نہیں کرسکے گا اور اپنے بارے میں یہ اندازہ ہو کہ عہدہ کے کام کو اچھا انجام دے سکے گا، اور کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسی حالت میں عہدہ  کا خود طلب کرلینا بھی جائز ہے ، بشرطیکہ حُبِّ جاہ ومال اس کا سبب نہ ہو،  بلکہ خلق اللہ تعالیٰ کی صحیح خدمت اور انصاف کے ساتھ ان کے حقوق پہنچانا مقصود ہو،  جیسے حضرت یوسف  (علیہ السلام) کے سامنے صرف یہی مقصد تھا اور جہاں یہ صورت نہ ہو تو حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکومت کا کوئی عہدہ خود طلب کرنے سے منع فرمایا ہے اور جس نے خود کسی عہدہ کی درخواست کی اس کو عہدہ نہیں دیا ۔

صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عبدالرحمن بن سمرہ (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا کہ کبھی کوئی امارت طلب نہ کرو؛ کیوں کہ تم نے خود سوال کر کے عہدہ ، امارت حاصل بھی کرلیا،  تو اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں ہوگی ، جس کے ذریعہ تم لغزشوں اور خطاؤں سے بچ سکو ، اور اگر بغیر درخواست اور طلب کے تمہیں کوئی عہدہ مل گیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید  و اعانت ہوگی،  جس کی وجہ سے تم اس عہدے کے پورے حقوق ادا کرسکو گے ۔

اسی طرح صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی عہدہ کی درخواست کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ( انَّا لن نَّستَعملَ عَلیٰ عَملنا مَن أَرَادَہٗ)یعنی ہم اپنا عہدہ کسی ایسے شخص کو نہیں دیا کرتے جو خود اس کا طالب ہو۔

حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طلب عہدہ خاص حکمت پر مبنی تھا: 

مگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا معاملہ اس سے مختلف ہے ، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ بادشاہ مصر کافر ہے، اس کا عملہ بھی ایسا ہی ہے اور ملک پر ایک طوفانی قحط آنے والا ہے، اس وقت خود غرض لوگ عام خلق اللہ پر رحم نہ کھائیں گے اور لاکھوں انسان بھوک سے مر جائیں گے، کوئی دوسرا آدمی ایسا موجود نہ تھا جو غریبوں کے حقوق میں انصاف کرسکے؛ اس لیے خود اس عہدہ کی درخواست کی،  اگرچہ اس کے ساتھ کچھ اپنے کمالات کا اظہار بھی بضرورت کرنا پڑا؛ تاکہ بادشاہ مطمئن ہو کر عہدہ ان کو سپرد کر دے۔

اگر آج بھی کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ کوئی عہدہ حکومت کا ایسا ہے جس کے فرائض کو کوئی دوسرا آدمی صحیح طور پر انجام دینے والا موجود نہیں اور خود اس کو یہ اندازا ہے کہ میں صحیح انجام دے سکتا ہوں تو اس کے  لیے جائز ہے، بلکہ واجب ہے کہ اس عہدہ کی خود درخواست کرے، مگر اپنے جاہ ومال کے  لیے نہیں، بلکہ خدمتِ خلق کے لیے جس کا تعلق قلبی نیت اور ارادہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ پر خوب روشن ہے ۔ (قرطبی)۔"

( سورہ ہوسف، 5 / 78 - 79،  آیت 55،  ط: ادارة المعارف)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"الثالثة : ودلت الآية أيضا على جواز أن يخطب الإنسان عملا يكون له أهلا ; فإن قيل : فقد روى مسلم عن عبد الرحمن بن سمرة قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عبد الرحمن لا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها . وعن أبي بردة قال : قال أبو موسى : أقبلت إلى النبي صلى الله عليه وسلم ومعي رجلان من الأشعريين ، أحدهما عن يميني والآخر عن يساري ، فكلاهما سأل العمل ، والنبي صلى الله عليه وسلم يستاك، فقال : ما تقول يا أبا موسى - أو يا عبد الله بن قيس . قال قلت : والذي بعثك بالحق ما أطلعاني على ما في أنفسهما ، وما شعرت أنهما يطلبان العمل ، قال : وكأني أنظر إلى سواكه تحت شفته وقد قلصت ، فقال : لن - أو - لا نستعمل على عملنا من أراده وذكر الحديث ; خرجه مسلم أيضا وغيره ; فالجواب : أولا : أن يوسف عليه السلام إنما طلب الولاية لأنه علم أنه لا أحد يقوم مقامه في العدل والإصلاح وتوصيل الفقراء إلى حقوقهم فرأى أن ذلك فرض متعين عليه فإنه لم يكن هناك غيره ، وهكذا الحكم اليوم ، لو علم إنسان من نفسه أنه يقوم بالحق في القضاء أو الحسبة ولم يكن هناك من يصلح ولا يقوم مقامه لتعين ذلك عليه ، ووجب أن يتولاها ويسأل ذلك ، ويخبر بصفاته التي يستحقها به من العلم والكفاية وغير ذلك ، كما قال يوسف عليه السلام : فأما لو كان هناك من يقوم بها ويصلح لها وعلم بذلك فالأولى ألا يطلب ; لقوله عليه السلام لعبد الرحمن : لا تسأل الإمارة وأيضا فإن في سؤالها والحرص عليها مع العلم بكثرة آفاتها وصعوبة التخلص منها دليلا على أنه يطلبها لنفسه ولأغراضه ، ومن كان هكذا يوشك أن تغلب عليه نفسه فيهلك ; وهذا معنى قوله عليه السلام: ( وكل إليها ومن أباها لعلمه بآفاتها ، ولخوفه من التقصير في حقوقها فر منها ، ثم إن ابتلي بها فيرجى له التخلص منها ، وهو معنى قوله : أعين عليها."

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

افسسران بالا سے پرومشن کا مطالبہ کرنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں