بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پراویڈنٹ فنڈ پر سود کے نام سے ملنے والے اضافی رقم کا حکم


سوال

  میں اگست 2020 میں ایک نجی کمپنی گلیکسواسمتھ کلائیں پاکستان لمیٹڈ جو کہ دوائی بنانے کی مشہور بین الاقوامی کمپنی ہے، 35 سال جاب کر کے ریٹائر ہوا ہوں، اس کمپنی میں ملازم کی تنخواہ سے ہر ماہ ایک مخصوص رقم پروویڈنٹ فنڈ (provident fund) کی مد میں کاٹ لی جاتی ہے، جتنی رقم ملازم کی تنخواہ سے (ماہانہ) کاٹی جاتی ہے اُتنی ہی رقم کمپنی خود بھی ہر ماہ ملازم کے پروویڈنٹ فنڈ میں جمع کردیتی ہے، مثلاً: جنوری 2020 میں ملازم کی تنخواہ سے دو ہزار روپے کاٹے گئے تو کمپنی نے جنوری 2020 میں دو ہزار روپے اپنی طرف سے بھی جمع کرا دیے ،اس طرح سال مکمل ہو جانے پر ملازم کی تنخواہ سے سال بھر میں چوبیس ہزار روپے P.F کی مد میں  جمع کر دیے، اس طرح سال کے آخر میں دونوں رقم ملا کر اڑتالیس ہزار(48000) روپے جمع ہو گئے، یقیناً کمپنی سارے ملازمین کی تنخواہوں سے کاٹی گئی رقم بشمول اپنی طرف سے ڈالی گئی رقم کہیں نہ کہیں invest کر دیتی ہے اور ہر سال اُس invest شُدہ رقم پر پروفٹ یا interest ملتا رہتا ہے۔

کمپنی نے P.F سے رقم نکلوانے کے لیے  ملازمین کے لیے ایک طریقہ کار و ضع کیا ہوا ہے، اُس طریقے کار کو اختیار کر کے ہی اشد ضرورت کی بنیاد پر ملازم P.F رقم نکال سکتا ہے ،براہ راست ملازم کی دسترس  میں  رقم نہیں ہوتی ہے، 35 سالہ سروس میں میری تنخواہ سے 710238 روپے کاٹے گئے اور اُتنے ہی روپے کمپنی کی طرف سے  ملائے گئے، اس طرح کل 1420476 کی رقم P.F کی مد میں جمع ہوئی ،35 سال کے عرصے میں، مجھے ضرورت پڑنے کی وجہ سے 3 بار اس فنڈ سے رقم نکلوانا پڑی۔

پہلی مرتبہ اکتوبر 1995 میں مبلغ 48000 روپے ،دوسری مرتبہ جولائی 2011 میں مبلغ 800000 روپے، تیسری مرتبہ نومبر 2019 میں مبلغ 880000 روپے، اگست 2020 میں ریٹائرمنٹ کے وقت جو رقم ملی وہ 833188 روپے تھی، اس طرح 35 سال میں کل رقم جو PF کی مد میں وصول ہوئی وہ 2561188 روپے ہے، 35 سال میں کل رقم جو تنخواہ سے کٹی اور کمپنی نے ملائی وہ 1420476 روپے ہے،  کل اضافی رقم جو مجھے ملی وہ 1140712 روپے ہے۔

آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کل اضافی رقم 1140712 (گیارہ لاکھ چالیس ہزار سات سو بارہ) اس رقم کو کیا میں اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی ماہانہ تنخواہ سے جو رقم کاٹی گئی تھی  اگر یہ جبری  تھی   تو ملازمت ختم ہونے کے بعد اس فنڈ سے سائل کوجتنی بھی رقم ملے گی وہ سائل کے  لیے حلال ہوگی،سود نہیں ہوگی ،اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا ۔  اوراگر یہ کٹوتی اختیاری ہے تو جو رقم سائل نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اور اس پر کمپنی نے اپنے جانب سے جو اضافہ کیا ہے  ان دونوں قسموں کی رقم کا وصول کرنا تو جائز هے، البتہ اس پر سود کے نام سے ملنے والی رقم کا لینا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"قوله:(بلبالتعجيلأو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."

 

(ج:7،ص:300،ط:دار الکتاب الاسلامی)

جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ سے متعلق لکھتے ہیں:

"         جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں