میں ایک ادارے میں کام کرتا ہوں اور ہر ماہ میری تنخواہ سے کچھ رقم provident fund کی مد میں کٹتی ہے، اس رقم کے مساوی رقم ادارہ بھی ادا کرتا ہے، یہ کل رقم ادارہ کے PF ٹرسٹ اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہے، اس رقم کو حاصل کرنے کے لئے ملازم کو ایک درخواست دینی ہوتی ہے جس کے تحت صرف چند شرائط کے تحت کل رقم کی Permanent withdrawal ممکن ہے۔
اگر ملازم ان شرائط کو پورا نہیں کرتا تو ادارے سے قرض (Loan) کے طور پر اپنا PF حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ہر ماہ اس کی تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا PF کی اُس رقم پر جو کہ ادارے کے پاس جمع ہے اور ملازم کے پاس ابھی تک آئی نہیں ہے زکوۃ لاگو ہو گی ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ شرائط کو پورا کرتے ہوئے اگر ملازم کو Permanent withdrawal یا Loan کی شکل میں یہ رقم حاصل ہو جاتی ہے تو کیا صرف اس سال کی زکو ادا کرنی ہوگی یا پچھلے سالوں کی زکوۃ کا بھی حساب کرنا ہو گا جن سالوں میں PF کی رقم ملازم کے ہاتھ میں نہیں تھی، بلکہ pf Tust کے اکاؤنٹ میں جمع تھی؟
صورتِ مسئولہ میں پراویڈنٹ فنڈ کی رقم کی کٹوتی اگر جبری یعنی ملازم کے اختیار کے بغیر ہے تو وہ رقم جب تک ادارے کے پاس جمع ہو، ملازم کے ہاتھ میں نہ آئی ہو تب تک اس پر زکاۃ لاگو نہیں ہوگی، نیز ملازم کے ہاتھ میں آنے کے بعد اسی وقت سے اس کی زکاۃ کا حساب کیا جائے گا، گزشتہ سالوں کی زکاۃ واجب نہیں ہوگی، لیکن اگر یہ کٹوتی اختیاری ہے، یعنی ملازم نے اپنی مرضی سے اس کی منظوری دی ہے یا کچھ کٹوتی جبری اور کچھ کی ملازم نے اپنی مرضی سے منظوری دی ہے تو پھر اختیاری کٹوتی میں زکاۃ کٹوتی کے وقت سے لاگو ہوگی۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ضعيف، وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلاً عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلاً عن شيء كالوصية أو بفعله بدلاً عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصاباً ويحول عليه الحول."
(کتاب الزکاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:1، ص:175، ط: دار الفکر)
مفتی محمد عبدالسلام چاٹگامی صاحب دامت برکاتہم العالیہ پراویڈنٹ فنڈ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
"امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے جو روایت منقول ہے اس کی رو سے جی پی فنڈ کی مد میں دورانِ ملازمت جو رقم جمع تھی وہ دینِ ضعیف ہے، اور دینِ ضعیف میں بعدالوصول سابقہ زمانہ کی زکاۃ نہیں آتی، بلکہ وہ رقم وصول ہونے کے بعد اگرسال گزرجائے تو بقدرِ نصاب زکاۃ آئے گی۔
پراویڈنٹ فنڈ/ جی پی فنڈ وغیرہ کے سلسلے میں مقتدر علماءِ پاکستان کا ایک متفقہ فتویٰ بھی شائع ہوچکاہے، جس میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری صاحب دامت برکاتہم بھی شامل ہیں"۔
(کتبہ: محمد عبدالسلام چاٹ گامی (16/ محرم الحرام 1390ھ) ( الجواب صحیح : احمدالرحمٰن)
فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
”(سوال۱۵۵ )میں سرکاری ملازم ہوں میری تنخواہ میں سے سرکار پرو ویڈنٹ فنڈ کے طور پر ماہانہ نو ر و پے لاز ما کاٹ لیتی ہے مگر میں مزید اکتالیس روپے جمع کرنے کے لئے اپنی مرضی سے لکھ دیتا ہوں اس طرح اب ہر مہینے لازما پچاس روپے کٹتے ہیں اور اب ان میں کمی بیشی کی بالکل گنجائش نہیں اور اس زائد رقم پر بھی وہی قانون لگتا ہے جو پروویڈنٹ فنڈ پر لگتا ہے کہ ریٹائر ہونے سے پہلے نہیں ملے گی تو میرے ذمہ زائد رقم اکتالیس روپے کی زکوۃ فی الحال ادا کرنا ضروری ہے یا نہیں ؟ بینوا توجروا۔
(الجواب) جونو۹رو پے لازما کٹتے ہیں اور اس پر جو مزید رقم ملے گی یہ سب سرکاریانعامہے اس پر زکوۃ کا مسئلہ ملنے اور قبضہ میں آنے کے بعد جاری ہوگا ملنے سے پہلے نہیں۔ البتہ جو تم ماہانہ (اکتالیس۴۱روپے ) جمع کرنے کی آپ نے اپنی مرضی سے منظوری دی ہے اس میں زکوۃ کا حکم جاری ہو گا اگر چہ وہ آپ کے قبضہ میں نہیں ہے، جس طرح ہم کسی کو اپنے مرضی سے قرض دیتے ہیں اس پر بھی ہمارا قبضہ نہیں ہوتا مگر زکوۃ واجب ہوتی ہے اسی طرح ہم نے جو رقم کسی کے پاس امانت رکھی ہے اس پر بھی ہمارا قبضہ نہیں ہے مگر وہ ہماری ملک ہے اور ہم نے اپنی مرضی سے امانت رکھوائی ہے اس لئے اس پر زکوٰۃ واجب ہے ، اسی طرح صورت مذکورہ میں بھی زکوۃ واجب ہے اور اس رقم پر سود کے نام سے جو رقم ملے گی وہ سود ہوگی کیونکہ وہ آپ کی ذاتی رقم کے حساب میں دی گئی ہے۔ “
(کتاب الزکوٰۃ، ج:7، ص:152، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100906
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن