بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

پرپال (prpal) ایپ کا حکم


سوال

پرپال، نیٹ میں ایک ایپ بنائی گئی ہے، لوگ اس میں پیسے جمع کرکے ویڈیوز دیکھتے ہیں اور ان کے اکاؤنٹ میں رقم جمع ہوتی ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

پرپال (prpal) کمپنی کی ویب سائٹ پر اس کا طریقہ کار دیکھا گیا، اس طریقۂ کار پر کام کر کے پرپال (prpal) کی ویب سائٹ یا ایپ پر پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

1- اس میں ایسے لوگ اشتہارات دیکھتے ہیں جن کا یہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، اور بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے والے کے ساتھ ایک قسم کا دھوکا ہے۔

2- جان دار کی تصویر کسی بھی طرح کی ہو بلا ضرورت اس کا دیکھنا جائز نہیں؛ لہذا اس پر جو اجرت لی جائے گی وہ بھی جائز نہیں ہوگی۔

3- ان اشتہارات میں خواتین کی تصاویر بھی ہوتی ہیں، جن کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے مستقل گناہ ہے۔

4- نیز اس معاملے میں جس طریق پر اس سائٹ کی پبلسٹی کی جاتی ہے، جس میں پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کو ہر نئے اکاؤنٹ بنانے والے پر کمیشن ملتا رہتا ہے، جب کہ اس نے اس نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا، اس بلا عمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور اس پر اجرت لینا بھی جائز نہیں۔ شریعت میں بلا محنت کمائی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اپنی محنت کی کمائی حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کو افضل کمائی قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ.

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آدمی کا خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لايكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به.

لہٰذا حلال کمائی کے لیے کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے جس میں اپنی محنت شامل ہو، ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

الشامیة(6/ 63):

مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لايستحق به أجرة. ولايجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولايجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها، ولا على حمل الخنزير. 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں