پہلے جامعہ علوم اسلامیہ دارالافتاء والوں نے فتاویٰ جاری کیے تھے کہ ایک گیم جس کا نام پب جی ہے، کچھ عرصہ پہلے اس گیم میں بتوں کو پوجا جاتا تھا ، لیکن اب اس گیم میں اس وقت ایسی کوئی حرکت نہیں یعنی بتوں کی پوجا کرنا ، آگ کی پوجا کرنا وغیرہ بالکل ۔ اس گیم یعنی پب جی گیم میں اب کوئی ایسی حرکت نہیں ہے، لہٰذا کیا اب ہم یہ گیم یعنی پب جی گیم کھیل سکتے ہیں ؟
بصورتِ مسئولہ پب جی گیم والوں نے اگر شرکیہ فعل والا موڈ گیم سے بالکلیہ ختم کردیا ہو تب بھی اس گیم کا کھیلنا بذاتِ خود بہت سے مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو ولعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے، نیز مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛ لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر گیم کھیلنا شرعًا جائز نہیں ہے۔
ہمارے سابقہ فتاوی میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کا حکم صرف اسی شخص کے لیے تھا جس نے اس گیم میں پلیئر کو بتوں کے سامنے جھکانے کا عمل کیا ہو۔ اور جس شخص نے مذکورہ عمل کیے بغیر یہ گیم کھیلا ہو وہ دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، البتہ ناجائز کام کرنے کی وجہ سے گناہ کا مستحق ہوگا اور اس پر توبہ و استغفار لازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200913
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن