میری ایک شادی پہلے ہوئی تھی اس سے میرے دو بچے تھے، اور پھر میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دی تھی، پھر آٹھ سال بعد میرے جاننے والے دور کے رشتہ دار نے مجھے شادی کا کہا، وہ امریکہ میں ہوتے ہیں، تو میں نے یہ سوچ کر کہ سہارا مل جائے گا اس سے شادی کرلی، اب شادی کو تین سال ہوگئے ہیں، نہ وہ یہاں آتا ہے اور نہ مجھے بلاتا ہے، نہ ہی اب تک دونوں کی ملاقات (ازدواجی تعلق قائم ہوا ہے) ہوئی ہے، اور پانچ، چھ مہینوں سے خرچہ بھی نہیں بھیج رہا، میں کیسے گزارہ کروں، میں اس کو کہتی ہوکہ مجھے چھوڑ دو، میں پاکستان میں ہی کسی سے نکاح کرلیتی ہوں، لیکن وہ نہیں مانتا۔
اور ہم دونوں کا نکاح بھی کوئی پیپر اور ثبوت والا نہیں ہواتھا، بلکہ فون پر ہوا تھا، لڑکے کی طرف سے لڑکا خود اور اس کا دوست تھا، اور میری طرف سے میری دوست، میری دوست کا شوہر، میں خود (لڑکی) ، اور نکاح خواں تھے، نکاح خواں نے لڑکے سےفون پر ان الفاظ میں ایجاب وقبول کرایا کہ: ”کیا فریال آپ کو اپنے نکاح میں قبول ہے؟ تو لڑکے نے فون پر کہا جی ہاں! میں نے فریال کو اپنے نکاح میں قبول کیا ہے“، تو کیا یہ نکاح نکاحِ صحیح ہوا ہے؟ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ نکاح درست نہیں ہوا ہے، کیوں کہ لڑکے کی طرف سے کوئی وکیل یہاں مجلس میں موجود نہیں تھا، اور اگر ہوا ہے تو یہ نکاح کیسے ختم کریں؟ کیوں کہ میرے پاس نکاح کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ عقدِ نکاح میں مرد اور عورت کے ایجاب وقبول کے معتبر ہونے کے لیے مجلس کا ایک ہونا ، اور گواہوں کا اسی مجلس میں موجود ہونا ضروری ہے، اگر لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک بیرون ملک میں ہو تو نکاح کے انعقاد کے لیے اسے اپنا وکیل مقرر کرنا ہوگا، جو اس کی طرف سے مجلسِ نکاح میں ایجاب وقبول کرے ، ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً لڑکا مجلسِ نکاح میں موجود نہیں تھا اور نہ ہی اس کی طرف سے کوئی وکیل مجلسِ نکاح میں موجود تھا اور لڑکے نے فون پر خود ایجاب وقبول کیا تھا تو پھر ایسی صورت میں یہ نکاح شرعًا منعقد نہیں ہواہے، لڑکی اب بھی دوسری جگہ شادی کرسکتی ہے، لڑکی پر لڑکے کی طرف سے شرعی طور پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوگی۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد."
(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 1/ 269، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا:
"ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل."
(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، 1/ 267، ط: دار الفكر)
وفيه أيضا:
"يصح التوكيل بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود، كذا في التتارخانية ناقلا عن خواهر زاده."
(كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، 1/ 294، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603103024
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن