بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پرانے متروک مقبرہ کو عید گاہ یا جنازہ گاہ بنانا


سوال

ایک پرانا مقبرہ ہے جس میں لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں اور لوگ مویشی چراتے ہیں لیکن وہاں پر قبروں کا نام و نشان موجود نہیں ہے، صرف کہیں کہیں پتھر پڑے ہوئے ہیں، علاقہ کے عمر رسیدہ افراد کا کہنا ہے کہ یہاں پر تقریبًا اسی سال سےکوئی تدفین نہیں ہوئی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس جگہ پر اہلِ علاقہ عید گاہ اور جنازہ گاہ بنانا چاہتے ہیں تو کیا اس جگہ پر عیدگاہ اور جنازہ گاہ بنانا جائز ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ اہلِ علاقہ کو اس جگہ کے علاوہ کوئی دوسری جگہ عیدگاہ اور جنازہ گاہ کے لیے دستیاب نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  قبرستان کی زمین  مملوکہ ہے اور وہاں پر قبریں اس قدر پرانی ہوچکی ہیں کہ  اموات  ان میں مٹی بن گئی ہیں  بلکہ قبروں کے نشانات تک مٹ گئے ہیں اور بطورقبرستان اس کا استعمال ختم ہوچکا ہے تو اس صورت میں اس جگہ  کو ہموار کر کے اس پر مکان، دکان، مدرسہ ، عیدگاہ اور جناز ہ گاہ بنانا سب جائز ہے،البتہ اگر قبرستان کی  زمین وقف کی ہے اور وقف کرنے والے نے اس جگہ کو قبرستان کے لیے ہی وقف کیا ہو  یا وقف کا ثبوت تو نہ ہو لیکن وقف کے طورپر اس کا استعمال رہا ہو تو وہ جگہ قبرستان ہی کے لیے وقف ہے۔  اب اگر وہ جگہ مردوں کو دفنانے  کے لیے استعمال نہیں کی جاتی ہے اور اسی سال سےبے کار پڑی ہے بلکہ نوجوان اس کو لہو ولعب کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس صورت میں  اہلِ علاقہ کے مسلمانوں کا باہم مشورہ سے  اس جگہ پر عیدگاہ اور جنازہ گاہ بنانا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في استبدال الوقف وشروطه (قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ) اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: الأول: أن يشرطه الواقف لنفسه أو لغيره أو لنفسه وغيره، فالاستبدال فيه جائز على الصحيح وقيل اتفاقا. والثاني: أن لا يشرطه سواء شرط عدمه أو سكت لكن صار بحيث لا ينتفع به بالكلية بأن لا يحصل منه شيء أصلا، أو لا يفي بمؤنته فهو أيضا جائز على الأصح إذا كان بإذن القاضي ورأيه المصلحة فيه. والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال."

(کتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص؛284، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."

(کتاب الصلاۃ، باب الجنائز ، ج:1، ص؛167، ط:دارالفکر)

عمدة القاری شرح صحيح البخاری میں ہے:

"فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد، لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد."

 (کتاب الصلاۃ، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية ويتخذ مكانها مساجد، رقم الحدیث:82498، ج:4، ص:179، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

پرانے قبرستان کو مسجد بنانا

سوال:ایک جگہ سالم قبروں کو توڑ کر اس جگہ مسجد بنائی جاوے، کیا قبروں کو توڑنا جائز ہے یا نہیں؟اور مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں ان قبر کی جگہ پر؟

جواب:اگر وہ قبرستان مملوکہ زمین ہے اور اس میں قبریں اس قدر پرانی  ہیں کہ میت ان میں بالکل مٹی بن گئی ہوتو ان قبروں کو توڑ کر زمین کو ہموار کر دیناوہان مسجد ، مدرسہ، دکان سب کچھ بنانا درست ہے۔

میت کے مٹی بن جانے کے بعد احکام بدل جاتے ہیں، اگر وہاں میت مٹی نہیں بنی تو وہاں مسجد وغیرہ بنانا اور قبر  کو توڑنا ناجائز ہے، ایسی حالت میں قبر کا احترام ضروری ہے۔

اگر وہ قبرستان پرانا اور وقف ہے اور اب وہاں مردے دفن نہیں ہوتے، دوسرا قبرستان موجود ہے اور اس قبرستان کے بے کار پڑے رہنے سے اندیشہ ہےکہ اس پر دوسرے لوگ غلط قبضہ کر لیں گےاور وہاں مسجد بنانا مناسب ہےتو مسلمانوں کے باہم مشوروں سےمسجد بنانا درست ہے۔

(باب فی احکام المقابر، ج:15، ص:353، ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں