بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قبر میں مردے سے نکیرین کے سوال کے جواب میں شیطان کے اشارہ کرنے، اور شیطان کا قبر میں داخل ہونے کا حکم


سوال

ایک صاحب کہتے ہیں کہ امام ترمذیؒ نے ”نوادر الاصول“ نامی اپنی  کتاب میں حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کے حوالہ سے حدیث لکھی ہے کہ شیطان قبر میں نکیر ین کے سوال : "من ربك؟" کے وقت نمودار ہوتا ہے، اور صاحبِ قبر سے اپنی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نکیرین کو مجھے رب بتاؤ۔

کیا یہ روایت درست ہے ؟اگر یہ  روایت درست ہے تو کس درجہ کی ہے؟اور اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

جواب

سوال میں مذکور قول "نوادر الأصول في أحاديث الرسول للترمذي"، "التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة للقرطبي"، "الدر المنثور في التفسير بالمأثور للسيوطي"، "فتح الباري لابن حجر" میں موجود ہے، لیکن یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب  روایت نہیں ہے، بلکہ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کا اپنا ایک قول ہے، کیوں کہ  مذکورہ قول امام ترمذی رحمہ اللہ   نے نہیں، بلکہ حکیم ترمذی (دونوں الگ شخصیتیں ہیں) نے  حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی طرف نسبت کے ساتھ بیان کیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف  نسبت نہیں کی ہے، اور حکیم ترمذی رحمہ اللہ کے بعد جن حضرات نے اس کو نقل  کیا ہے،  انہوں نے بھی حکیم ترمذی رحمہ اللہ کے حوالہ سے نقل  کیا ہے، اس قول سے متعلق ہمیں تلاشِ بسیار کے باوجود کسی محدث کا کلام نہیں مل سکا، اور نہ ہی اس کی کوئی سند مل سکی کہ جس کو بنیاد بنا کر اس پر کلام کیا جائے، بلکہ حکیم ترمذی رحمہ اللہ اور ان سے نقل کرنے والوں نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے،  لہذا سند کے بغیر اس  قول کے درست ہونے یا نہ ہونے کا  حکم نہیں لگا یا جاسکتا، البتہ جب تک  کوئی معتبرسند نہ مل جائے تو اس کے بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔  

البتہ  ایک  اور روایت   ملتی ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جید السند کہا ہے : "كانوا ‌يستحبون ‌إذا ‌وضع ‌الميت في اللحد أن يقال: اللهم أعذه من الشيطان الرجيم(صحابہ کرام  میت کو قبر میں رکھنے کے بعد یہ دعا پڑھنا مستحب سمجھتے کہ: اے اللہ اس میت کو شیطان سے محفوظ رکھے)، اس روایت میں  اگرچہ یہ تصریح نہیں ہے کہ شیطان قبر میں   داخل ہوکر  اپنا اثر ڈال سکتا ہے، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ شیطان کا اثر مردے پر ہوسکتا ہے۔ حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسی روایت کو دیکھتے ہوئے   سفیان ثوری رحمہ اللہ کا مذکورہ قول ذکر کیا ہے، اور یہ کہا  ہےکہ شیطان قبر میں داخل ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمیں سفیان ثوریؒ کے قول کے علاوہ کافی تلاش کے بعد بھی کوئی حدیث اس طرح نہیں مل سکی کہ جس میں  صراحتاً  یہ ہو کہ شیطان قبر میں داخل ہوسکتا ہے۔ چناں چہ فتاوی محمودیہ میں بھی اس بات کی تائید ہے کہ شیطان  میت کی قبر میں جا کر نکیرین کے سوال کے وقت اپنا پھندا ڈالنا کسی حدیث  میں نہیں دیکھا۔خلاصہ یہ ہے کہ شیطان قبر میں داخل نہیں ہوسکتا، البتہ باہر سےاپنا  اثر ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع بن الجراح عن سفيان عن عمرو بن مرة عن خيثمة قال: ‌كانوا ‌يستحبون ‌إذا ‌وضع ‌الميت في القبر أن (يقولوا): بسم الله، وفي سبيل الله، وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم، اللهم أجره من عذاب القبر وعذاب النار وشر الشيطان."

(مصنف ابن أبي شيبة، كتاب الدعاء، ما يدعو به الرجل إذا وضع الميت في قبره، 16/ 364، ط: دار كنوز إشبيليا)

سنن ابن ماجہ میں ہے: 

"حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا حماد بن عبد الرحمن الكلبي قال: حدثنا إدريس الأودي، عن سعيد بن المسيب، قال: حضرت ابن عمر في جنازة، فلما وضعها في اللحد، قال: "بسم الله، وفي سبيل الله، وعلى ملة رسول الله" فلما أخذ في تسوية اللبن على اللحد قال: "اللهم ‌أجرها ‌من ‌الشيطان، ومن عذاب القبر، اللهم جاف الأرض عن جنبيها، وصعد روحها، ولقها منك رضوانا" قلت: يا ابن عمر أشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، أم قلته برأيك؟ قال: "إني إذا لقادر على القول، بل شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(سنن ابن ماجة، كتاب الجنائز، باب ما جاء في إدخال الميت القبر، 1/ 495، ط: دار إحياء الكتب العربية)

نودر الاصول میں ہے:

"عن عمرو بن مرة قال ‌كانوا ‌يستحبون ‌إذا ‌وضع ‌الميت في اللحد أن يقال اللهم أعذه من الشيطان الرجيم فإنما كانوا يتخوفون من فتنة الفتانين من قبل العدو وأنه يشبه على من كان في قلبه زيغ أيام الحياة فرُوي عن سفيان الثورى: أنهقال إذا سُئل الميتُ ‌مَن ‌ربك؟ تراءى له ‌الشيطانُ في صورةٍ، فيشير إلى نفسِه، أي: أنا ربك... فلو لم يكن للشيطان هناك سبيل ما كان ليدعو له رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن يجيره من الشيطان وإنما سؤال الميت في هذه الأمة خاصة لأن الأمم قبلها كانت الرسل تأتيهم بالرسالة فإذا أبوا كفت الرسل فاعتزلت."

(نوادر الأصول في أحاديث الرسول، الأصل الخمسون والمئتان، 6/ 26، ط: دار النوادر، دمشق)

فتح الباری میں ہے:

"وأخرج الحكيم الترمذي في نوادر الأصول عن سفيان الثوري أن الميت إذا سئل من ربك تراءى له الشيطان فيشير إلى نفسه إني أنا ربك فلهذا ورد سؤال التثبت له حين يسأل ثم أخرج بسند جيد إلى عمرو بن مرة كانوا يستحبون إذا وضع الميت في القبر أن يقولوا اللهم أعذه من الشيطان."

(فتح الباري لابن حجر، قوله باب الدعاء قبل السلام، 2/ 319، ط: دار المعرفة)

التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة میں ہے:

"قال: حدثنا الفضل بن ذكين عن سفيان عن الأعمش عن عمرو بن مرة. قال: كانوا يستحبون إذا وضع الميت في اللحد أن يقولوا: اللهم أعذه من الشيطان الرجيم. وروي "عن سفيان الثوري أنه قال: إذا سئل الميت: من ربك؟ ‌تراءى ‌له ‌الشيطان ‌في ‌صورة فيشير إلى نفسه: إني أنا ربك، قال أبو عبد الله: فهذه فتنة عظيمة. ولذلك كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو بالثبات، فيقول: اللهم ثبت عند أحدهما منطقه. وافتح أبواب السماء لروحه"

(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة، ‌‌باب ما يقال عند وضع الميت في قبره، ص: 333، ط: مكتبة دار المنهاج)

کشف الاسرار میں ہے:

"سؤال المنكر والنكير فإن سؤالهما من الابتلاء والفتنة ولهذا سميا فتاني القبر. وقد روي عن سفيان الثوري رحمه الله أنه قال إذا سئل الميت من ربك ‌تراءى ‌له ‌الشيطان ‌في ‌صورة فيشير إلى نفسه أي أنا ربك فهذه فتنة عظيمة جعلها الله تعالى مكرمة للمؤمن إذا ثبته ولقنه الجواب فلذلك "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت يدعو له بالثبات ويقول لأصحابه سلوا له التثبيت فإنه الآن يسأل."

(كشف الأسرار للبزدوي، ‌‌باب بيان العقل، باب بيان الأهلية، باب الأمور المعترضة على الأهلية، 4/ 329، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

منکر نکیر کے ساتھ کیا شیطان بھی قبر میں جاتا ہے؟

”سوال [۳۲۸] : میت کو قبر میں رکھ کر جب مٹی دیکر فارغ ہوتے ہیں تو قبر میں پہلے شیطان داخل ہوتا ہے یا منکر نکیر یا دونوں بیک وقت پہو نچتے ہیں، اور پھر پہلے کون اپنا سوال میت سے کرتا ہے؟ یا نکیرین سوال حق پوچھتے ہیں اور شیطان اپنا پھندافٹ کرنا چاہتا ہے یعنی میت فرشتوں کو صحیح جواب نہ دے سکے؟ اور شیطان بالغ کی قبر میں جاتا ہے یا نا بالغ کی بھی ، مرد کی قبر میں جاتا ہے یا عورت کی بھی ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی ہاں شیطان قبر میں کہاں جاتا ہے اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر میں بھی جاتا ہے۔ شریعت کے مطابق حکم صادر فرمایا جائے۔

الجواب حامداً و مصلياً :

شیطان کا میت کی قبر میں جا کر نکیرین کے سوال کے وقت اپنا پھندا ڈالنا کسی حدیث میں نہیں دیکھا۔ بظاہر تو معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ میت پر اس قسم کا اثر نہیں ڈالتا کہ میت جواب نہ دے سکے، اس کی کوشش کا وقت ختم ہو گیا، لائسنس بیکار ہو گیا۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ۔ حرره العبد محمود غفر له دار العلوم دیو بند ، ۹۰/۲/۸ھ۔ الجواب صحیح ، بندہ نظام الدین عفی عنہ، دارالعلوم دیو بند ، ۹۰/۲/۹ھ۔“

(فتاوی محمودیہ،مایتعلق باحوال  القبور والارواح، 1/ 621، ط: ادارۃ الفاروق، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں