1۔ مردے کو دفن کرنے کے بعد جب سرہانے اور پیر کی جانب کھڑے ہوکر قاری حضرات جو تلاوت کر تے ہیں، یہ تلاوت سنت ہے یاواجب یافرض ہے؟
2۔ اگر قاری ایک ہو تو کیادونوں جانب تلاوت کرسکتاہے ؟
3۔ سر اور پیر کی جانب اگر تلاوت یاد ناہو جو قاری حضرات پڑ ھتے ہیں تو کیا کوئی بھی چھو ٹی سورت پڑھنے پر اکتفا کر سکتا ہے یانہیں؟
1- میت کو دفن کرنے کے بعد جب قبر پر مٹی ڈال دی جائے تو میت کے سرہانے سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں”الم“ سے ”المفلحون “ تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی جانب سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“ سے آخرِ سورت تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے۔
2- ایک ہی شخص دونوں جانب پڑھ سکتا ہے ۔
3- اگر کسی کو مذکورہ رکوع یاد نہ ہو تو اسی ہیئت کے ساتھ قبر کے سرہانے اور پائینتی کوئی دوسری سورت پڑھنے سے اجتناب بہترہے، تاکہ آئندہ اس کے اہتمام کا رواج نہ ہوجائے۔
حدیثِ مبارک میں ہے:
"عن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلاتحبسوه و أسرعوا به إلى قبره، و ليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة و عند رجليه بخاتمة البقرة». رواه البيهقي في شعب الإيمان. وقال: والصحيح أنه موقوف عليه."
(1/ 149، باب دفن المیت، الفصل الثالث، ط: قدیمی)
"فتاوی شامی" میں ہے:
" ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه۔
(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت ؛ فإنه الآن يسأل۔» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها."
(2/237، باب صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)
"الاعتصام للشاطبی" میں ہے:
"ومنها: (ای من البدع) التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته''.
(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظًا، ط: دار ابن عفان، السعودية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200584
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن