ہماری ذاتی ملکیت میں پرانا قبرستان سال8-1947 سے قبل کا ہے ،یعنی تقریبا 75 سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے جس پر5 -4 فٹ چار دیواری کی ہوئی ہے اور قبرستان میں دیگر اموات دفنانے کی کوئی جگہ باقی نہیں ہے (شارع ریشم (قراقرم)روڈ مانسہرہ کےملحقہ روڈپر ہماری ایک مسجد تعمیر شدہ ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا اس قبرستان کو محفوظ کر کے 8سے7فٹ اونچی چار دیواری اس پر کر کے اس پر لینٹر (چھت) کر کے اوپر دکانیں تعمیر کی جائیں اور اس کی آمدنی مذکورہ مسجد کے اخراجات میں استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اگر قبرستان موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس کی زمین پر کسی کے لیے ملکیتی تصرف کرنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ جس مقصد کے لیے وقف ہے اسی میں استعمال کرنا لازم ہےاور اگر قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اَموات مٹی بن چکی ہوں تو اس میں جدید اَموات کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی ہو، مثلاً: مدرسہ،مسجد، عیدگاہ یا جنازگاہ وغیرہ بنا جائے، اور اگر قبرستان کی زمین کسی کی ذاتی ملکیت ہواورمالک نےتحریری یازبانی طورپرقبرستان کےلئےوقف نہیں کیاتواس پر8-7فٹ چاردیواری کرکےلینٹر(چھت)ڈالنااور اس کےاوپردکانیں تعمیرکرناجب کہ مزیداموات کےدفنانےکی جگہ باقی نہ رہی ہو اگرمالک کی اجازت سےہواورمالک کےانتقال کےبعدتمام موجودہ ورثاءکی اجازت اوررضاءمندی سےہوتویہ جائزہوگا، واضح رہےکہ چوں کہ اس مملوکہ قبرستان کی زمین مال موروث ہےجس میں تمام ورثاءمیں سےہرایک کی اجازت اوررضامندی کاہوناشرعاضروری ہے،کوئی بھی وارث اگراس میں تصرف کرنےپرراضی نہ ہو تو پھر اس زمین میں تصرف جائزنہیں ہوگا، تمام ورثاءکی رضامندی کےبعد اس بات کاخیال ضروری ہے کہ چھت ڈالنےسے قبریں متاثر نہ ہوں اورقبرستان کی بےادبی وبےحرمتی نہ ہو،اوررہی بات اس کی آمدنی کی تواس میں چوں کہ تمام ورثاء کاحصہ اورہروارث اپنےحصہ کاحق دارہے، لہذا اگر ان کی اجازت اور رضامندی ہو تومذکورہ مسجدکی تعمیرات میں استعمال کرسکتےہیں ،اوراگرورثاءمیں سے کوئی راضی نہ ہوتواس کےحصہ کاکرایہ اسے دیا جائےگاباقی جومسجدکی تعمیرپرراضی ہوں گےان کےحصہ کی آمدنی مسجد کی تعمیرمیں استعمال کی جاسکتی ہے۔
فتاوی شامی ہے:
(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن إلا في صورة الخلط) لماليهما بفعلهما كحنطة بشعير وكبناء وشجر وزرع مشترك قهستاني،قوله: إلا في صورة الخلط) والاختلاط فإنه لا يجوز البيع من غير شريكه بلا إذنه.
والفرق أن الشركة إذا كانت بينهما من الابتداء، بأن اشتريا حنطة أو ورثاها.
كانت كل حبة مشتركة بينهما فبيع كل منهما نصيبه شائعا جائز من الشريك والأجنبي، بخلاف ما إذا كانت بالخلط أو الاختلاط كان كل حبة مملوكة بجميع أجزائها ليس للآخر فيها شركة، فإذا باع نصيبه من غير الشريك لا يقدر على تسليمه إلا مخلوطا بنصيب الشريك فيتوقف على إذنه، بخلاف بيعه من الشريك للقدرة على التسليم والتسلم. اهـ. فتح وبحر.
قلت: ومثل الخلط والاختلاط بيع ما فيه ضرر على الشريك، أو البائع أو المشتري، كبيع الحصة من البناء أو الغراس، وبيع بيت معين من دار مشتركة.
( کتاب الشرکۃ، ج: 4، ص: 300، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
[فصل في حكم الشركة]
وأما حكم الشركة.
فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا.»
(کتاب الشرکۃ، ج: 6، ص: 65، ط: دارالفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه."
(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ، ج: 2، ص: 233، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو بلى الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه، كذا في التبيين."
(کتاب الصلاۃ، الفصل السابع فی الشہید، ج: 1، ص: 167، ط: دارالفکر)
وفیہ ایضا:
"رجل وقف ضيعته على جهة معلومة أو على قوم معلومين ثم إن الواقف غرس شجرا قالوا: إن غرس من غلة الوقف أو من مال نفسه لكن ذكر أنه غرس للوقف يكون للوقف وإن لم يذكر شيئا وقد غرس من مال نفسه يكون له وورثته بعده ولا يكون وقفا، كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض، ج: 1، ص: 474، ط: دارالفکر)
المحیط البرہانی میں ہے:
"في «فتاوي أبي الليث» : مقبرة فيها أشجار فهذه المسألة على وجهين: احدهما .......الوجه الثاني: إذا نبتت الأشجار بعد اتخاذ الأرض مقبرة وإنه على وجهين أيضاً: إن علم لها غارس فهي للغارس لأنها ملك، وإن لم يعلم لها غارس فالحكم في ذلك إلى القاضي إن رأى بيعها وصرف ثمنها إلى عمارة المقبرة فله ذلك؛ لأنه إذا لم يعلم لها غارس كانت في حكم الوقف، ألا ترى أن الشجرة إذا نبتت في ملك إنسان ولا يعرف لها غارس كانت الشجرة لصاحب الملك فكذا."
(کتاب الوقف، الفصل الثالث والعشرون: في المسائل التي تعود إلى الأشجار التي في المقابر وفي أرض الوقف، ج: 6، ص: 661، ط: دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100027
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن