بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گنبدِ خضریٰ پر قیاس کرتے ہوئے قبروں کو پختہ بنانے کا حکم


سوال

قبروں کو پختہ بنانے کا حکم کیا ہے؟اور گنبد خضراء پر اس کو قیاس کرنا کیسا ہے؟

جواب

1۔صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے قبروں کو پختہ بنانے اور اُن پر تعمیر کرنے سے ممانعت فرمائی ہے، اس لیے کسی بھی مسلمان کی قبر کو پختہ بنانا ہرگز جائز نہیں ہے، نیز آپ ﷺ  کی قبر مبارک بھی کچی ہی ہے، پختہ نہیں ہے، البتہ چوں کہ خود آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ نبی کا مدفن وہی جگہ بنتی ہے، جہاں وہ دنیا سے پردہ فرماتے ہیں ،اس لیے اس حکم کی تعمیل میں آپ کا روضۂ مبارکہ حجرۂ عائشہ میں بنایا گیااور جس چارپائی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال  ہو ا ہے،اسی چار پائی کے نیچے ہی قبر مبارک بنائی گئی ہےاور وہ پہلے ہی سے تعمیر شدہ تھا، گویا کہ آپ کی قبرِ اطہر پر دفن کے بعد کوئی تعمیر نہیں ہوئی، بلکہ پہلے سے بنی ہوئی تعمیر میں حسبِ حکمِ نبوی تدفین ہوئی ہے۔

اور آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تدفین عمارت میں تبعاً ہے، کسی اور کی قبر پر پختہ تعمیر کرنا صحیح نہیں۔

 2۔ گنبدِ خضراء ساتویں صدی ہجری میں تعمیر کیا گیا ہے،اس سے پہلے اس قسم کا گنبد خضراء نہیں تھا،اور نہ ہی آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کا حکم دیا تھا،نیز یہ گنبدِ خضراء نئی تعمیر کے حکم میں نہیں ہے،بلکہ اسی حجرہ عائشہ (جو پہلے سے تعمیر تھا) کی تجدید کی حیثیت رکھتا ہے،اسی کے ساتھ اپنے گھر میں تدفین ،یہ انبیاء کرام علیہم السلام کی خصوصیت ہے؛ لہذا  کسی امتی کی قبر کو پختہ بنانے کے لیے گنبدِ خضراء پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ع۔چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔

مسلم شریف میں ہے :

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا حفص بن غياث، عن ابن جريج، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر، وأن يقعد عليه، وأن يبنى عليه."

(كتاب الجنائز، باب النهي عن تجصيص القبر والبناء عليه، ج:٢، ص:٦٦٧، رقم:٩٧٠، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی ٰشامی میں ہے :

"أما البناء علیه فلم أر من اختار جوازہ في شرح المنیة عن منیة المفتي المختار أنه لایکره التطیین وعن أبي حنیفة یکره أن یبنی علیه بناء من بیت أوقبة أو نحو ذلك لما روی جابر: نهی رسول ﷲ ﷺ عن تجصیص القبور و أن یكتب علیها و أن یبنی علیها."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الميت، مطلب في دفن الميت، ج:٢، ص:٢٣٧، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ولاینبغي أن یدفن المیت في الدار و لوکان صغیراً؛ لاختصاص هذه السنة بالأنبیاء."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الميت، مطلب في دفن الميت، ج:٢، ص:٢٣٧، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال: قبروں کو چونے،گچ سے پختہ قبے تعمیر کرنا،روشنی کرنا،عرس کرنا،قوالی کرنا وغیرہ کیسا ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً: یہ سب چیزیں ناجائز اور معصیت ہیں،    لما روی جابر رضی اللہ عنہ : "نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن تجصیص القبور،وأن يكتب عليها،وأن يبنى عليها "رواه مسلم.

( باب الجنائز،   الفصل السادس فی البناء علی القبور، ج:9، ص:159-160،ط:ادارۃ الفاروق)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"اصل مقام تو اب بھی خام ہے، ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں حجرہ خام (کچا) کو گرا کر منقش پتھروں سے تعمیر کیا گیا اور ایک حظیرہ بنا یا گیا، حضرت عروہ رضی اللہ عنہ نے منع بھی کیا، لیکن ان کی شنوائی نہ ہوئی، پھر وقتاً فوقتاً تغییر وتزیین ہو تی رہی، حتی کہ 678ہجری  میں قبۂ خضراء تعمیر کیا گیا۔"

  (باب الجنائز،  الفصل السادس فی البناء علی القبور،  ج: 9،ص:163، ط:ادارة الفاروق)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال: مزارات سلاطین و اولیاء کرام پر جو قبے تعمیر ہیں موافق کتاب کے ہیں یا ان میں کچھ کلام ہے؟ اگر باتباع قبہ مزار پر انوار آنحضرت ﷺ کے بزرگوں کے مزار پر قبے قائم کریں تو جائز ہو گا یانا جائز اور میت کو یا کسی بزرگ کو اندرونِ مکان مستقف و فن کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب: قبہ بنانایا مکان میں دفن کرنا سوائے انبیاء کے اور کسی کو جائز نہیں۔ شامی (میں ہے):ولا ينبغي أن يدفن الميت في الدار ولو كان صغيرا؛ لاختصاص هذه السنة بالأنبياء...ويهال التراب عليه، وتكره الزيادة عليه من التراب؛لأنه بمنزلة البناء."

(کتاب الجنائز، ج:5، ص:268، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں