بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قادیانی اور مرتد کے سلام کا جواب دینا


سوال

 حدیث  ہے کہ  "إذا سلّم عليكم أهل الكتاب فقولوا عليكم"  کیا اس حدیث کی وجہ سے  مرتد وزندیق ، اسی طرح قادیانی اور رافضی وغیرہ کے سلام کا جواب دے سکتے ہیں؟  نیز ایک نامعلوم شخص سلام  کرے ( جب کہ وہ  مرتد  وغیرہ ہو، لیکن معلوم نہ ہو) تو اس کو جواب دے سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ”السلام علیكم ورحمة اللہ“سے سلام  کرنا اسلامی شعار ہے،  یہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہے، کسی غیر مسلم کو ان الفاظ کے ساتھ سلام کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،  اگر غیر مسلم سلام میں پہل کردے تو جواب میں صرف "وعلیكم"  کہہ سکتے ہیں،  اگر  کہیں غیر مسلم کو ابتداءً سلام کرنے کی ضرورت پیش آجائے  تو   "السَّلَامُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى" کے الفاظ سے سلام کیا جاسکتا ہے، نیز سوال میں ذکر کردہ  حدیث مبارکہ میں جو حکم مذکور ہے وہ صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص نہیں ، بلکہ دیگر کفار کا بھی یہی حکم ہے۔ 

صورت مسئولہ میں اگر  مرتد، زندیق، قادیانی  اور رافضی وغیرہ سلام کرے  تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہے، اگر جواب دینا پڑجائے تو صرف ”وعلیکم“ یا  ”هداك الله “   کہہ سکتے ہیں۔

باقی  اگر کسی شخص کے کفر کے بارے میں معلوم نہ ہو تو اس کے سلام کا جواب دینا جائز  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فلا يسلم ابتداء على كافر لحديث «لا تبدءوا اليهود ولا النصارى بالسلام فإذا لقيتم أحدهم في طريق فاضطروه إلى أضيقه» رواه البخاري وكذا يخص منه الفاسق بدليل آخر، وأما من شك فيه فالأصل فيه البقاء على العموم حتى يثبت الخصوص، ويمكن أن يقال إن الحديث المذكور كان في ابتداء السلام لمصلحة التأليف ثم ورد النهي اهـ فليحفظ. ولو سلم يهودي أو نصراني أو مجوسي على مسلم فلا بأس بالرد (و) لكن (لا يزيد على قوله وعليك) كما في الخانية.

(قوله وأما من شك فيه) أي هل هو مسلم أو غيره وأما الشك بين كونه فاسقا أو صالحا فلا اعتبار له بل يظن بالمسلمين خيرا ط (قوله على العموم) أي المأخوذ من قوله صلى الله تعالى عليه وسلم «سلم على من عرفت ومن لم تعرف» ط (قوله إن الحديث) أي الأول المفيد عمومه شمول الذمي (قوله لمصلحة التأليف ) أي تأليف قلوب الناس واستمالتهم باللسان والإحسان إلى الدخول في الإسلام (قوله ثم ورد النهي) أي في الحديث الثاني لما أعز الله الإسلام (قوله فلا بأس بالرد) المتبادر منه أن الأولى  عدمه ط لكن في التتارخانية، وإذا سلم أهل الذمة ينبغي أن يرد عليهم الجواب وبه نأخذ.(قوله ولكن لا يزيد على قوله وعليك) لأنه قد يقول: السام عليكم أي الموت كما قال بعض اليهود للنبي صلى الله عليه وسلم فقال له " وعليك " فرد دعاءه عليه وفي التتارخانية قال محمد: يقول المسلم وعليك ينوي بذلك السلام لحديث مرفوع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «إذا سلموا عليكم فردوا عليهم»."

(كتاب الحظر والإباحة، 6/ 412، ط: سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”قادیانی نے نُصوص قطعیہ کے خلاف اپنا عقیدہ اپنی کتابوں میں لکھا ہے؛ اس لیے وہ اسلام سے خارج ومرتد ہیں، جو مسلمان قادیانی مذہب اختیار کرلے اُس کا بھی وہی حکم ہے، اس کو سلام کرنا اور اُس کے سلام کا جواب دینا اور اس کی دعوت قبول کرنا اور اس کی دعوت کرنا جائز نہیں، تمام کفار کے ساتھ جو معاملہ کیا جاتا ہے مرتد کا معاملہ اُس سے مختلف ہے۔“

(بقیہ کتاب الحظر والاباحۃ، باب السلام، 19/ 100، ط: فاروقیہ)

وفیہ أیضا:

"سوال: شیعہ جو رافض کہلاتے ہیں یا مرزا قادیانی لوگوں کو سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا شرع شریف میں کیسا ہے؟

جواب:ان لوگوں کو سلام نہیں کرنا چاہیے، اگر یہ لوگ سلام کردیں تو جواب میں فقط  ”وعلیکم“   کہہ دیا جائے یا ” ہداک اللہ“ کہہ دینا چاہیے۔"

(بقیہ کتاب الحظر والاباحۃ، باب السلام، 19/ 100، ط: فاروقیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144607102514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں