آج سے کچھ عرصہ قبل مجھے ایک کمپنی میں انٹرویو دینے کا موقع ملا۔ میں وہاں انٹرویو دے کر آیا، جو کہ کامیاب رہا، اور کمپنی کے مینیجر نے مجھے کمپنی میں کام کرنے کے لئے مدعو کیا۔ کمپنی کافی اچھی تھی اور اس میں مجھے کام کرنے میں مزا آتاہے۔ جس کام کے سلسلے میں میں نے انٹرویو دیا تھا، وہ تھا کمپیوٹر کی فروخت دوسری کمپنیوں کو۔ اور مجھے بچپن سے ہی کمپیوٹر پر گیم کھیلنا اور کام کرنا پسند ہے۔ جب شام میں میں نے کمپنی کے حوالے سے انٹرنیٹ پر معلوم کیا تو پتا چلا کہ کمپنی کے مالک قادیانی ہیں، ان سے بات چیت کرتے وقت بھی مجھے محسوس نہیں ہوا کہ ان کا مذہب الگ ہے۔ مجھے مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ کمپنی میں قادیان کے حوالے سے کوئی سر گرمی نہیں ہوتی ہے، اس کا بانی ایک سرگرم قادیانی رہ چکا ہے۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو کچھ دوستوں سے مشورے کے بعد میں نے اس کمپنی سے معذرت کر لی اور اس میں شامل نہیں ہوا۔
میرا یہ سوال ہے کہ کیا میرا یہ فیصلہ صحیح ہے؟ کیا اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس طرح کی کمپنی (کاروبار) میں کام کریں؟ یہ بات یاد رہے کہ اس کمپنی کا بانی/مالک ایک کٹر قادیانی رہ چکا ہے، جس نے قادیانی مذہب کے لیے کام کیا ہے اور اس پر اپنا پیسہ خرچ کیا ہے۔
واضح رہے کہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے اہم ترین عقیدہ ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘ ہے، جس پر ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں، جب کہ قادیانی نہ صرف یہ کہ اس عقیدہ کے منکر ہیں، بلکہ ختمِ نبوت کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کو پیغمبر تسلیم کرتے ہیں،ملکی آئین کی رو سےقادیانیوں کو شعائرِ اسلامی کے استعمال اورقادیانیت کی تبلیغ سے روک دیا گیاہے، لیکن امتناعِ قادیانیت آرڈیننس منظور ہوجانے کے باوجود منکرینِ ختم نبوت قادیانی ، مرزائی دنیا بھر میں آج بھی مختلف چالوں سے مسلمانوں کے ایمان پرمسلمانوں ہی کے کمائے ہوئے پیسوں سے حملہ آور ہیں۔وہ ایسے کہ قادیانی اپنی آمدن کا مخصوص حصہ قادیانیت کی ترویج وتبلیغ پر صرف کرتے ہیں اورکرنے کے پابند بھی ہیں ،اس لیے مسلمانوں کو وہ ذریعہ بند کرنا چاہیے جو ایسے قادیانی اقدامات کو تقویت پہنچا رہا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں قادیانی چوں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکا دیتےہیں جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے،اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے، (گو غیرمسلموں سے دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے بھی سخت ہے؛ لہذا سائل نے جو مذکورہ قادیانی کمپنی کے بارے میں معلومات کے بعد اس میں ملازمت سے معذرت کی ہے، یقیناًیہ سائل کی ایمانی حمیت کی بناء پرقابلِ ستائش اور باعث اجر وثواب عمل ہےجو عنداللہ ماجور بھی ہے ۔ الغرض سائل کے لیے یا کسی بھی مسلمان شخص کے لیے مذکورہ قادیانی شخص کی کمپنی میں ملازمت اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔
اکفارالملحدین میں ہے:
"وثانیها إجماع الأمة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."
(مجموعة رسائل الکاشمیری، ج:3، ص:81، ط:ادارة القرآن)
الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (تفسیرِ زمخشری) میں ہے:
"وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (113)
ولا تركنوا...من أركنه إذا أماله، والنهى متناول للانحطاط في هواهم، والانقطاع إليهم، ومصاحبتهم ومجالستهم وزيارتهم ومداهنتهم، والرضا بأعمالهم، والتشبه بهم، والتزيي بزيهم، ومدّ العين إلى زهرتهم. وذكرهم بما فيه تعظيم لهم."
(سورة الهود، رقم الآية:113، ج:2، ص:433، ط:دارالكتاب العربى)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101980
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن