بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قادیانیوں کو گمراہ سمجھنے کے باوجود کافر نہ کہنا / مرزا قادیانی کے نام کے ساتھ صاحب لکھنا


سوال

1۔ اگر کوئی شخص خود ختمِ نبوت کا اقرار کرے پر وہ شخص قادیانیوں کو کافر نہ مانے بلکہ ایک گمراہ مسلمان فرقہ مانے اور یہ کہے کہ"مرزا غلام احمد قادیانی تو اپنے آپ کو کھلم کھلا محمدی اور متبع کامل دین احمدی کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی نبوت تو اُن کے زعم و اصطلاح میں تماتر اتباعِ رسول ہے"۔ تو اس شخص کا کیا حکم ہے؟

2۔ اگر کوئی شخص خود ختمِ نبوت کا اقرار کرے اور اس بات کا اقرار کرے کہ قادیانیوں کا موقف غلط ہے پر جب کوئی دوسرا شخص اس سے قادیانیوں کے کافر ہونے کے بارے میں پوچھے تو وہ کہے کہ"میں کسی بھی کلمہ گو کی تکفیر کا قائل نہیں"اور"ایک کلمہ گو کے قول کی کمزور سے کمزور تاویل بھی اسے خارج از اسلام کر دینے کے مقابلے میں قابلِ ترجیح ہے۔"اور"ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے مجھ کو کچھ حق نہیں کہ میں اس کا انکار کروں"مزید یہ کہے کہ"قرآن کی کسی آیت میں اور پیغمبرﷺ کی کسی حدیث میں مجھ کو دوسروں کو کافر یا مسلمان کہنے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔" تو اس شخص کا کیا حکم ہے؟

3۔ زید کہتا ہے کہ مرزا (غلام احمد قادیانی )کے نام کے ساتھ"صاحب" لگانا درست نہیں ہے کیونکہ مفتیان صاحبان کے مطابق"ملعون مرزا غلام احمد قادیانی کے نام کے ساتھ"صاحب"کا لفظ ذکر نہیں کرنا چاہیے،کیونکہ یہ لفظ احترام کے لئے ہےجبکہ ملعون زنادقہ میں سے ہے،اور اس کی تحقیر واجب ہے"۔

جبکہ عمرو اس پر ا عتراضاکہتا ہے کہ بعض علماء کرام اب بھی مرزا(غلام احمد قادیانی) کے نام کے ساتھ "صاحب" لگاتے ہیں اورماضی میں بھی کئی اکابر علماء کرام ومفتیان صاحبان نے اپنے فتاویٰ و تحریرات میں مرزاکے نام کے ساتھ"صاحب" لگایا ہوا ہے۔ مثلا ملفوظات حکیم الامتؒ(ج29،ص226)،فتاویٰ بینات(ج1،ص203،204وغیرہ)،آپ کے مسائل اور ان کا حل(ج1،ص223وغیرہ)، معارف القرآن از مولانا ادریس کاندھلویؒ)ج2،ص621-622) اور دیگر کئی تحریرات میں مرزا کے ساتھ"صاحب" کا لاحقہ لگاہوا ہے۔

اس بارے میں سوال یہ ہے کہ مرزا (غلام احمد قادیانی) کے نام کے ساتھ"صاحب" لگانے کے بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟ اور قادیانیوں کے ساتھ "صاحبان"لگانےکے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

1۔وا ضح رہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعوی کرے وہ بالا جماع کا فر ہے۔ اس کو جو لوگ اپنا امام،  مجدد  ، مامور من اللہ، مہدی، مسیح،  ظلی نبی، تسلیم کریں وہ بھی کافر ہیں حتی کہ  جھوٹے مدعی نبوت کو جو لوگ مسلمان سمجھیں،  اسے کافر نہ سمجھیں،  وہ کفر کو کفر نہ سمجھے یا کفر کو اسلام سمجھے کی وجہ سے وہ بھی کافر ہیں۔

امت مسلمہ کے تمام علماء کرام نے مرزا قادیانی کو اس کے دعوی نبوت اور دیگر کفریہ دعووں کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے ۔مرزا ملعون کے بارے میں یہ کہنا "مرزا غلام احمد قادیانی تو اپنے آپ کو کھلم کھلا محمدی اور متبع کامل دین احمدی کہتے ہیں۔ چنانچہ اُن کی نبوت تو اُن کے زعم و اصطلاح میں تماتر اتباعِ رسول ہے"۔ خود اس کی  اپنی تحریرات کے خلا ف ہے ،چنانچہ ذیل میں مرزا قادیانی ملعون کی چند تحریرات پیش کی جاتی ہیں جن سے اس کے دعووں کی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے:

’’ہماری جماعت میں سے بعض صاحب جو ہمارے دعویٰ اور دلائل سے کم واقفیت رکھتے ہیں، جن کو نہ بغور کتابیں دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ وہ ایک معقول مدت تک صحبت میں رہ کر اپنے معلومات کی تکمیل کرسکے، وہ بعض حالات میں مخالفین کے کسی اعتراض پر ایسا جواب دیتے ہیں کہ جو سراسر واقعہ کے خلاف ہوتا ہے، اس لیے باوجود اہل حق ہونے کے ان کو ندامت اٹھانی پڑتی ہے، چنانچہ چند روز ہوئے ہیں کہ ایک صاحب پر ایک مخالف کی طرف سے یہ اعتراض پیش ہوا کہ جس سے تم نے بیعت کی ہے، وہ نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا جواب محض انکار کے الفاظ سے دیا گیا، حالانکہ ایسا جواب صحیح نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی وہ پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، اس میں ایسے الفاظ، رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں، نہ ایک دفعہ بلکہ صدہا دفعہ۔ پھر کیونکر یہ جواب صحیح ہوسکتا ہے کہ ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں، بلکہ اس وقت تو پہلے زمانے کی نسبت بھی بہت تصریح اور توضیح سے یہ الفاظ موجود ہیں۔‘‘

(ایک غلطی کا ازالہ، ص:۳، روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۰۶ ،از مرزا قادیانی) 

’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گزرچکے ہیں، ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا، پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں، کیونکہ کثرت وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط ان میں پائی نہیں جاتی۔‘‘           

               (حقیقۃ الوحی، ص:۳۹۱، روحانی خزائن، ج:۲۲، ص:۴۰۶-۴۰۷، از مرزا قادیانی)

’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘

  (ملفوظات،ج:۵، ص:۴۴۷،طبع جدید،از مرزا قادیانی)

’’سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔‘‘               

               (دافع البلائ، ص:۱۱مندرجہ روحانی خزائن، ج:۱۸، ص:۲۳۱، از مرزا قادیانی) 

’’جو کوئی میری جماعت میں داخل ہوگیا وہ صحابہ میں داخل ہوگیا۔‘‘

(خطبہ الہامیہ،ص:171)

یہ چند  تحریرات ہیں ،جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا ملعون اپنی نبوت کو صرف اتباع ِرسول نہیں قرار دے رہا ،بلکہ وہ اپنے آپ کو اللہ کا بھیجا ہوا رسول اور نبی کہتاہے،اپنے اوپر اللہ جل شانہ کی وحی نازل ہونے کا دعوی کرتا ہے،اپنے ماننے والوں کو صحابہ کی جماعت میں شامل کرتا ہے ۔

مزید تفصیل کے لئے فتاوی بینا ت (ج:1،ص:203تا209مطبوعہ مکتبہ بینات ) کا مطالعہ کریں ۔

2۔یہ کہناکہ "میں کسی بھی کلمہ گو کی تکفیر کا قائل نہیں،ایک کلمہ گو کے قول کی کمزور سے کمزور تاویل بھی اسے خارج از اسلام کر دینے کے مقابلے میں قابلِ ترجیح ہے۔" یا  یہ کہنا کہ"ایک کلمہ گو کے قول کی کمزور سے کمزور تاویل بھی اسے خارج از اسلام کر دینے کے مقابلے میں قابلِ ترجیح ہے۔" علماءا مت اور فقہاء کرام کی تصریحات کی روشنی میں سراسرا غلط ہے ،علماء امت کی تصریحات کے مطابق  اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے ،یا کوئی ایسی  تاویل و تحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیدا کردے تو وہ کافر ہے،اگر چہ وہ ظاہراً اسلام کاکلمہ پڑھتا ہو۔

چنانچہ ختم  نبوت کا عقیدہ  ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے بنیادی اصول  اور ضروریات دین میں شمار کیے گئے ہیں،  اور عہد نبوت سے لے کر آج  تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں ۔  قرآن کریم کی تقریباً  سو کےقریب آیات مبارکہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کےدو سو کے قریب فرامین (احادیث مبارکہ) سے ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ ہمارے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بلا تاویل وتخصیص اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور خاتم الرسل ہیں، اس میں کسی قسم کی تاویل  اور شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔

لہذا قادیانی جو  مرزا ملعون کو اپنا نبی مانتے ہیں اور ختم نبوت کا صراحۃً یا تاویلاً انکار کرتے ہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، زندیق اور مرتد کے حکم میں ہیں۔اسی طرح جو  شخص ان  قادیانیوں کو کافر نہ سمجھے وہ گمراہ ہے اور اس پر بھی  کفر کا اندیشہ ہے ۔

3۔واضح رہے کہ  مرزا قادیا نی نے ابتداء ہی سے نبوت کا دعوی نہیں کیا تھا ،بلکہ یہ شخص پہلے حق اور باطل کے درمیان مناظرے کیا کرتا  تھا اور اپنے آپ کو ایک  مصلح اور  مسلمانوں کاخیرخواہ ظاہر کرتا تھا ،ابتداء میں اس شخص کی غلط باتوں کی اصلاح کے  لئے علماء کرام اس کو اپنی تقاریر اور تحاریر میں مرزا صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے،چنانچہ پھر تخاطب کا یہ انداز  مرزا قادیانی کے لئے عام ہوگیا۔

دوسری بات یہ ہے کہ عموما ہماے اکابرعلماء دیوبند جب اہل ِ باطل سے کوئی بات کرتے تو حتی الامکان کوشش کرتے کہ اس انداز میں بات کی جائے کہ    مخاطب ان کے طرز گفتگو سے متنفر  نہ ہو اور حق بات  اس کو سمجھ آجائے۔ مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے ساتھ بھی   اکابر  علماء کرام کا یہی طرزِ رہا، چنانچہ جب اس شخص کے بارے میں سوال کیا جاتا تو سائلین عموما سوال میں مرزا صاحب،قادیانی صاحبان  وغیرہ کےالفاظ  استعمال  کرتے ،تو  علماء کرام جواب میں بھی مخاطب  کے متنفر نہ ہونے کی خاطر مرزا صاحب یا قادیانی صاحبان وغیرہ الفاظ  لکھ دیا  کرتے تھے،اکابر اور علماء کرام   مرزا قادیانی کے لئے اس لفظ کا استعمال ہرگز  احترام یا اکرام کے لئے نہیں کیا کرتے تھے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ اردو  لغت کی کتابوں میں ’’صاحب ‘‘ کے  مختلف معانی یار ،دوست ،ساتھی ،مالک ،شریف ،کلمہ تعظیم اور کلمہ خطاب وغیر ہ ذکر کئے گئے ہیں ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان میں اس لفظ کے معنی صرف احترام کے لئے  نہیں ہیں ،بلکہ سیاق و سباق کے اعتبار  اس کا استعمال مختلف معانی میں ہوجاتا ہے ۔

حاصل یہ ہےکہ   اکابر علماء کرام اور مفتیان کرام کی تحریرات میں جہاں مرزا قادیانی کے لئے صاحب اور قادیانیوں کے لئے صاحبان  کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ بطور خطاب کے لکھا گیا  ہے جیسا کہ ان عبارات کے سیاق وسبا ق سے معلوم ہوتاہے ۔

بہرحال اب مرزا قادیانی کے لئے صاحب کالفظ ہمارے عرف میں نہیں بولا جاتا ،بلکہ آنجہانی موصوف کا تذکرہ ہلکے الفاظ ہی سے کیا جاتا ہے ،اس لیے بظاہر اشکال کی گنجائش نہیں رہی ،جبکہ صاحب کا لفظ ہمارے عرف میں  معزز لوگوں کے ناموں کے ساتھ بطورِ تعظیم و اکرام استعمال ہوتاہے، اسی لیے اب مرزا قادیانی  کے نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘کا لفظ استعمال کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں :

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن أنكر المتواتر فقد كفر."

 (كتاب السير،الباب التاسع في أحكام المرتدين،مطلب في موجبات الكفر،2/ 265،ط:سعید)

’’اکفار الملحدین ‘‘ میں ہے: 

"والمراد "بالضروريات على ما اشتهر في الكتب: ما علم كونه من دين محمد - صلى الله عليه وسلم - بالضرورة، بأن تواتر عنه واستفاض، وعلمته العامة، كالوحدانية، والنبوة، وختمها بخاتم الأنبياء، وانقطاعها بعده، وهذا مما شهد الله به في كتابه، وشهدت به الكتب السابقة، وشهد به نبينا - صلى الله عليه وسلم -، وشهد به الأموات أيضاً، كزيد بن خارجة الذي تكلم بعد الموت، فقال: محمد رسول الله النبي الأمي، خاتم النبيين، لا نبي بعده، كان ذلك في الكتب الأول، ثم قال: صدق صدق."ذكره بهذا اللفظ في "المواهب وغيرها، وكالبعث والجزاء، ووجوب الصلاة والزكاة، وحرمة الخمر ونحوها."

(ص:2،ط:مجلس علمی)

وفيه أيضا:

"إعلم أن المراد بأهل القبلة :الذين اتفقوا علي ماهو من ضروريات الدين كحدوث العالم  وحشر الأجساد و علم الله تعالي بالكليات و الجزئيات و ماأشبه ذلك من المسائل المهمات فمن واظب طول عمره علي الطاعات و العبادات مع اعتقاد قدم العالم و نفي الحشر أو نفي علمه  سبحانه بالجزئيات لا يكون من أهل القبلة عند أهل السنة :أنه لا يكفر مالم يوجد شئ من إمارات  الكفر وعلاماته ولم يصدر عنه شئ من موجباته."

(ص:16،ط:مجلس علمی)

وفيه أيضا:

"ولهذا أي للقول بكفر من خالف ظاهر النصوص والمجع عليه نكفر من لم يكفر من دان بغيرملة اللإسلام من الملل أو وقف فيهم أتوقف و تردد في تكفيرهم أو شك في كفرهم أو صحح مذهبهم."

(ص:58،ط:ط:مجلس علمی)

وفي تاج العروس من جواهر القاموس:

"صحبه كسمعه) يصحبه (صحابة) بالفتح (ويكسر وصحبة) بالضم كصاحبه: (عاشره) . والصاحب: المعاشر."

 (3/ 185ط:ودار إحياء التراث)

وفي لسان العرب :

"صحب: صحبه يصحبه صحبة، بالضم، وصحابة، بالفتح، وصاحبه: عاشره. والصحب: جمع الصاحب مثل راكب وركب. والأصحاب: جماعة الصحب مثل فرخ وأفراخ. والصاحب: المعاشر."

(1/ 519الناشر: دار صادر - بيروت)

جواہر الفقہ میں ہے:

’’تکفیر مسلم کے بارے میں ضابطہ شرعیہ یہ ہوگیا کہ جب تک کسی شخص کے کلام میں تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو،یا اس عقیدہ کے کفر ہونے میں ادنی سے ادنی اختلاف ائمہ اجتہاد  میں واقع ہو ،اس وقت تک اس کے کہنے والے کو کافر نہ کہا جائے ۔لیکن اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے ،یا کوئی ایسی ہی تاویل و تحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیدا کردے ،تو اس شخص کے کفر میں کوئی تامل نہ کیا جائے۔‘‘

(ج :1،ص:115 ،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فیروز اللغات میں ہے:

’’صاحب:(1)یار ۔دوست ۔ساتھی(2)مالک ۔آقا۔حاکم(3)جنٹلمین۔شریف(4) کلمہ خطاب(5)کلمہ احترام جو نام کے بعد لکھا جاتاہے ۔جمع :اصحاب۔فارسی جمع :صاحبان۔‘‘

(ص:906،ط:فیروز سنز لمیٹڈ)

اردو لغت میں ہے:

’’2 ۔کلمہ تعظیم یا تخاطب،مراد :حضرت ،جناب ،آپ۔۔۔صاحب ادیان:محتلف مذاہب کے ماننے والے لوگ۔

اب وہ کہاں ہیں صاحب ادیان پاستان

ہندو نئے نئے ہیں ،مسلمان نئے نئے ‘‘

(ص:826ط:اردو لغت بورڈ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101603

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں