بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

قادیانیوں اور غیرمسلموں کے ساتھ لین دین کا حکم اور فرق


سوال

ہمارے ایک دوست جو ماشااللہ حافظِ  قرآن ہیں، قادیانیوں کے ساتھ خرید و فروخت کے حوالے سے اشکال کا شکار ہیں ، ان کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو دوسرے غیر مسلم افراد کے  ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ فرمایا اور کسی کا  تجارتی بائیکاٹ نہیں کیا ، مزید یہ کہ اللہ تعالی نے تو کسی نافرمان کا رزق بند نہیں کیا ، اس حوالہ سے راہ نمائی فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے اہم ترین عقیدہ ’’عقیدہ ختمِ نبوت‘‘  ہے،  جس پر ساری دنیا کے مسلمان متفق ہیں، جب کہ قادیانی نہ صرف یہ کہ اس عقیدہ کے منکر ہیں، بلکہ ختمِ نبوت کے مقابلہ میں مرزاقادیانی کو پیغمبر تسلیم کرتے ہیں، پوری ملتِ اسلامیہ متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافروں کی بد ترین قسم زندیق قرار دیتی ہے  ، پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے 1974 میں قادیانیوں کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا،  اس کے بعد صدر پاکستان نے تعزیرات پاکستان میں ”دفعہ 298 بی“ اور ”298 سی“  کا اضافہ کرتے ہوئے قادیانیوں کو شعائرِ اسلامی کے استعمال اورقادیانیت کی تبلیغ سے روک دیا۔

لیکن امتناع قادیانیت آرڈیننس منظور ہوجانے کے باوجود منکرین ختم نبوت قادیانی،  مرزائی  دنیا بھر میں  آج بھی مختلف چالوں سے مسلمانوں کے ایمان پرمسلمانوں ہی کے کمائے ہوئے پیسوں سے  حملہ آور ہیں، وہ ایسے کہ قادیانی اپنی آمدن کا دسواں حصہ قادیانیت کی ترویج وتبلیغ پر صرف کرتے ہیں اورکرنے کے پابند بھی ہیں ،اس لیے   ہمیں وہ ذریعہ بند کرنا ہوگا جو ایسے قادیانی اقدامات کو تقویت پہنچا رہا ہے یعنی چندے کا پیسہ،  جو قادیانی، مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی نیت سے ہر  ماہ ادا کرتے ہیں ، اور ایسا کرنے کے لئے سب سے اہم طریقہ جو منطقی بھی ہے اور شرعی لحاظ سے بھی قابل قبول کہ ہم اپنا ہی پیسہ اپنے پاؤں پر کلہاڑا مارنے کے لیے  کم از کم خرچ نہ کریں؛ کیوں  کہ قادیانی مصنوعات جو ہم خریدیں گے ، اس کے منافع کا پیسہ واپس پلٹ کر ہمارے ہی بھائی بہنوں کے ایمان کو لوٹنے کے لیے  استعمال ہوتا ہے۔

بصورتِ مسئولہ  قادیانی چوں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمانوں کو دھوکا  دینے کی کوشش کرتے ہیں،    جس سے بسا اوقات ان کے کفریہ عقائد مخفی رہ جاتے ہیں اور ساتھ رہنے والا ان کو حق پر سمجھنے لگتا ہے،  جس سے اس کے عقائد کے خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ رہتا ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان اور مرزا قادیانی کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دیتے ہیں، اس لیے ان سے زندگی کے ہرمعاملات میں تعلق قائم کرنے سے احتراز ضروری ہے۔ (گو غیرمسلموں سے جائز دنیاوی معاملات کرنے میں کوئی حرج نہیں) مگر ان کا معاملہ غیرمسلموں سے جدا اور  سخت  ہے، لہذا قادیانیوں سے  کسی بھی طرح کا  لین دین جائز نہیں ہے  ۔

دوسرےغیرمسلموں سے کاروبار اس وجہ سے جائز ہےکہ وہ اپنےآپ کو غیر مسلم تسلیم کرتے ہے ، قادیانیوں کی طرح منکر اور  غدار نہیں ہیں ،جو اپنےآپ کو غیر مسلم بھی تسلیم نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی مسلمان ان سے دھوکا  کھاسکتا ہے؛کیوں  کہ ان کی ہیئت بالکل واضح ہے اور اسی وجہ تو خود آپﷺ نے بھی غیر مسلموں کے ساتھ تجارت کی ہے، البتہ غیرمسلموں کےساتھ بھی کاروبار اس وقت درست ہے کہ مسلمان کا دینی لحاظ سے بھی کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ رکھاجاتاہو۔

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعة رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

" و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(المسوی شرح المؤطا،ج:،ص:13)

تفسیر جلالین و کشاف میں ہے:

"قال الله تعالی: وَلَا تَرْكَنُوْا اِلَى الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ الآیة، وفي الجلالین: ولا ترکنوا تمیلوا إلی الذین ظلموا بموادة أو مداهنة أو رضي بأعمالهم فتمسّکم تصبکم النار". (جلالین: ۱/ ۱۸۹)

"وفي الکشّاف: والنهي تناول للانحطاط في هواهم والانقطاع إلیهم ومصاحبتهم ومجالستهم وزیارتهم ومداهنتهم والرضی بأعمالهم والتشبه لهم والتزي بزیهم ومدّ العین إلی زهرتهم وذکرهم بما فیه تعظیم لهم" (کشاف: ۲/۹۵)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المرتد إذا باع أو اشتری یتوقف ذلك إن قتل علی ردته أو مات أو لحق بدار الحرب بطل تصرفه و إن أسلم نفذ بیعه."

(الباب الثانى عشر فى أحكام البيع الموقوف، ج:3، ص:359، ط:مکتبه رشیدیه)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" لا بأس بأن یکون بین المسلم و الذمي معاملة إذا کان مما لابد منه"

(الباب الرابع عشر، ج:5، ص:348، ط:مکتبة رشیدیة)

روح المعانی میں ہے:

" أي لايتخذ أحد منكم أحدًا منهم وليًّا بمعنى لاتصافوهم مصافاة الأحباب."

(روح المعانی،ج:6،ص:156،ط:دارالتراث العربی بیروت)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

مسجد کی تعمیر کے لیے قادیانی سے رقم لینا

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110200990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں