میری بیوی پر حج فرض ہے، لیکن وہ ابھی (18) کی نہیں ہے، اور ہماری ایک بیٹی بھی ہے جو حج کے مہینے تک چھ ماہ کی ہو جائے گی، وہ قانون کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں جاسکتی، تو کیا اس کو چھوڑ کر جاسکتے ہیں یا دو سال بعد حج کریں؟
حج فرض ہونے کے بعد جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، بلاعذر تاخیر نہیں کرنی چاہیے،تاہم اگر حج فرض ہوجانے کے بعد تاخیر سے ادا کرلیا تو بھی حج ادا ہوجائےگا اور تاخیر کا گناہ بھی نہیں ہوگا، البتہ اگرعذرہوجیساکہ سائل کا چھ مہینے کا شیرخوار بچہ ہے، جبکہ اس بچےکو کوئی سنبھالنے والا بھی نہیں ہے، تو اس شیرخوار بچے کی وجہ سے فریضہ حج کو دوسال بعد بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(قوله: فرض مرة على الفور) أي فرض الحج في العمر مرة واحدة في أول سني الإمكان...
(قوله: بشرط حرية وبلوغ وعقل وصحة وقدرة زاد وراحلة فضلت عن مسكنه وعما لا بد منه ونفقة ذهابه وإيابه وعياله...
(قوله: وأمن طريق) أي وبشرط أمن طريق يعني وقت خروج أهل بلده وإن كان مخيفا في غيره وحقيقة أمن الطريق أن يكون الغالب فيه السلامة".
(کتاب الحج، واجبات الحج، ج:2، ص:333، ط:دارالکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508100575
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن