میری شادی پر مجھے میرے والدین کی طرف سے زیورات کے سیٹ ملے تھے اور شوہر کی طرف سے بھی کچھ زیورات ملکیت کے طور پر ملے تھے، جب میری شادی ہوئی تو میرے شوہر کرایہ کے فلیٹ میں رہ رہے تھے، کچھ سالوں بعد انہوں نے ایک فلیٹ بک کروایا، اس کے بعد میرے شوہر نے کہا کہ اپنے زیورات مجھے دو تا کہ میں اس فلیٹ کی رقم ادا کر دوں، لیکن میں نےاپنے زیورات دینے سے انکار کر دیا اور زیورات نہ دینے پر شوہر نے مجھے طلاق دینے کی دھمکی دی، اور زیورات نہ دینے پر بار بار ہمارا جھگڑا ہوتا تھا اس لیے میں اپنا زیور بیچ کر دکان لینا چاہتی تھی، کچھ مہینوں بعد میرے شوہر نے کہا کہ میں اب پریشان ہوں میں نے فلیٹ والے کو رقم دینی ہے، میری بی سی (BC) ڈلی ہوئی ہے جب بی سی (BC) کے بیس لاکھ روپے ملیں گے تو میں آپ کو دے دوں گا اور فلیٹ بھی آپ کے نام کروا دوں گا، میں نے اپنے شوہر کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے اپنا زیور شوہر کے حوالے کر دیا پھر شوہر نے نہ تو وعدے کے مطابق بی سی (BC)دی اور نہ ہی فلیٹ میرے نام کروایا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ میرا زیور میری ملکیت تھا شوہر سے واپس لینے کا تقاضہ کرتی ہوں کہ جتنا میرا زیور تھا اس وزن کا مجھے زیور بنوا کر دیا جائے یا اس کے مساوی رقم آج کے حساب سے جو بنتی ہے وہ مجھے دی جائے تو کیا میرا شرعا یہ تقاضا کرنا درست ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں آپ کا قرض دیے ہوئے زیور جتنے زیور یا اس کی موجودہ قیمت کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے، اور آپ کے شوہر کے ذمہ واجب ہے کہ جتنا سونا بطورِ قرض لیا تھااتنے ہی وزن اور کیرٹ کا سونا واپس کرے یا اس کی موجودہ دور کے اعتبار سے جتنی قمیت بنتی ہے وہ واپس کرے، قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام نہ لے ورنہ گناہ گار ہوگا، باقی چوں کہ شوہر اور سائلہ کے درمیان قرض کا معاملہ ہوا ہے لہٰذا اس قرض کے عوض کسی بھی قسم کا مشروط نفع وصول کرنا خواہ فلیٹ کی صورت میں ہو یا کسی اور چیز کی صورت میں ہو شرعاً جائز نہیں ہوگا، بل کہ سود ہوگا اور سود حرام ہے۔
مبسوط میں ہے :
"ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قرض جر منفعة وسماه ربا. "
(كتاب الصرف ، باب القرض والصرف فيه ، ج :14 ، ص : 35 ، ط :مطبعة السعادة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"الديون تقضى بأمثالها".
(كتاب الأيمان، باب اليمين في الضرب والقتل وغير ذلك، ج : 3، ص : 789، ط : سعيد)
وفيه ايضا :
"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه.وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.....(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة".
(كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج : 5، ص : 166، ط : سعيد)
وفيه ايضا :
"(و) صح (بيع من عليه عشرة دراهم) دين (ممن هي له) أي من دائنه فصح بيعه منه (دينارا بها) اتفاقا، وتقع المقاصة بنفس العقد إذ لا ربا في دين سقط ... (قوله: وتقع المقاصة بنفس العقد) أي بلا توقف على إرادتهما لها، بخلاف المسألة الآتية، ووجه الجواز أنه جعل ثمنه دراهم لا يجب قبضها ولا تعيينها بالقبض وذلك جائز إجماعا؛ لأن التعيين للاحتراز عن الربا أي ربا النسيئة ولا ربا في دين سقط إنما الربا في دين يقع الخطر في عاقبته؛ ولذا لو تصارفان دراهم دينا بدنانير دينا صح لفوات الخطر".
(كتاب البيوع، باب الربا، مطلب في حكم بيع فضة بفضة قليلة مع شيء آخر لإسقاط الربا، ج : 5، ص : 265، ط : سعيد)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"رجل أقرض رجلا ألف درهم وقبضها المستقرض ثم إن المقرض قال للمستقرض اصرف الدراهم التي لي عليك بالدنانير.... فإن أراد الطالب أن يأخذ الدنانير من المستقرض ودفع إليه المستقرض باختياره جاز ذلك وهذا عندهم جميعا كذا في المحيط".
(كتاب البيوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ج : 3، ص : 205/06، ط : دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102307
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن