میں ہندوستان حیدرآباد سے ہوں، میں اپنے بھائی کو مکان لینے کے لیے قرض کے طور پر 17 لاکھ روپے ہندوستان کے دے رہا ہوں ، اس کے پاس باقی آدھی رقم موجود ہے، جملہ رقم 34 لاکھ روپے میں مکان کی خریداری ہو رہی ہے ، مجھے میری رقم کی ادائیگی سات سے آٹھ سال میں ہوگی، اب میرا سوال یہ ہے کہ ان سات آٹھ سالوں کے بعد جب میری رقم ملے تو ان پورے 17 لاکھ پھر میرے لیے سات سال کی زکوۃ فرض ہے یا صرف ایک سال کی جس سال پوری رقم مجھے واپس مل جائے؟
واضح رہے کہ قرض پر دی ہوئی کی رقم کی زکوٰۃ مالک (یعنی قرض دینے والے ) پر لازم ہوتی ہے، لیکن جب تک قرض وصول نہ ہو اس وقت تک اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی لازم نہیں ہوتی،البتہ قرض کی رقم کے وصول ہونے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوتا ہے، اگر پیشگی قرض پر دی ہوئی رقم کی زکوٰۃ ادا کردی جائے تو یہ بھی جائز ہے اور پھر قرض وصول ہونے کے بعد گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اپنے بھائی کو سترہ لاکھ روپے قرض دے گا تو اس کی زکوٰۃ سائل پر لازم ہے، سائل اگر اس رقم کی زکوٰۃ ہر سال اپنی زکوٰۃ کے ساتھ ادا کردے تو بہتر ، ورنہ قرض کی رقم وصول ہونے کے بعد گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ لازم ہوگی، اور گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ نکالنے میں ہر بعد والے سال میں سے پہلے سال کی زکوٰۃ کو منہا کیا جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ."
(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، 2/ 305، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100462
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن