بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض دار پر قربانی


سوال

میں ایک تاجر ہوں اور 40 لاکھ کا  قرض دار ہوں اور میں دوسروں کے  پیسوں سے کام کرتا ہوں ،اس وقت میں  40 لاکھ کا قرض دار ہوں، جو کام یا تجارت کرتا ہوں وہ دوسروں کےپیسوں سے کرتا ہوں تو کیا میرے اوپر قربانی واجب الاداء ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں ( اگر مقروض ہے تو قرض کی رقم منہا کرنے کے  بعد )ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

لہذا اگرسائل  کے اوپر قرض ہے ،لیکن سائل  کے پاس ضرورت سے زائد سازوسامان اور کچھ مال بھی ہے  تو  اگر کل سازوسامان و مال اتنا ہو کہ رواں سال واجب الادا قرض ادا کرنے کے بعد بھی سائل  کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد، نصاب کے بقدر یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال بچا رہتا ہے، تو سائل  پر قربانی واجب ہوگی  او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو سائل  پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لا تجب....."

(کتاب الاضحیۃ،ج5،ص292،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں