بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض دی ہوئی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

نعیم نامی شخص کے اوپر میرے پچیس لاکھ روپے واجب الاداء ہیں، یہ رقم اس پراپریل 2022سے باقی ہے، وہ دینے سے انکاری بھی نہیں ہے لیکن ہرسال معمولی رقم ادا کرتا ہے ،ایک سال تو اس نے ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا، کبھی پورے سال میں 40000 اور کبھی 80000 روپے ادا کیے ہیں اور وہ بھی بہت تقاضوں کے بعد ادا کیا ہے اور اگر میں مطالبہ نہ کروں تو شاید 10سال تک ادا کرے یا کبھی ادا نہ کرے، میں اس رقم کی زکوٰۃ پابندی سے ادا کرتا ہوں جو کہ 60000سے زائد بن جاتی ہے(وہ مجھے جتنی رقم ادا کرتا ہے وہ ساری زکوٰۃ میں چلی جاتی ہے، جس کا مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا)۔

اس صورت میں مجھے کیا کرنا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ نقد روپیہ یا سونا چاندی کسی کوقرض دیا، یا تجارت کا مال کس کو فروخت کیا تھا اور اس کی قیمت اس کے ذمہ باقی ہے، پھر یہ مال ایک سال یا دو تین سال کے بعد وصول ہوا،ایسے قرض کو دین قوی" کہا جاتا ہے۔

ایسا قرض اگر چاندی کے نصاب(ساڑھے باؤن تولے چاندی) کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر پچھلے تمام سالوں کی زکوۃ حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یکمشت وصول نہ ہو، بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو، جتنی رقم وصول ہوتی جائے اس کا چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) زکوٰۃ ادا کرتا رہےاور اگر قرض کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر نہیں بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکوۃ فرض نہیں ہوگی ، البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم ہے، اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو جاتے ہیں تو زکوۃ فرض ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں  سائل پر اتنی رقم کی زکوٰۃ واجب ہوگی جتنی رقم اس کو ہر سال  ملے گی،  اس سے زائد رقم کی زکوٰۃ  کی ادائیگی اس پر   لازم نہیں  ہے، البتہ  جب  اسے  مکمل رقم مل جائے تو اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم (و) عند قبض (مائتين منه لغيرها) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك.ويعتبر ما مضى من الحول قبل القبض في الأصح، ومثله ما لو ورث دينا على رجل (و) عند قبض (مائتين مع حولان الحول بعده) أي بعد القبض (من) دين ضعيف وهو (بدل غير مال) كمهر ودية وبدل كتابة وخلع، إلا إذا كان عنده ما يضم إلى الدين الضعيف كما مر؛ ولو أبرأ رب الدين المديون بعد الحول فلا زكاة سواء كان الدين قويا أو لا خانية، وقيده في المحيط بالمعسر.أما الموسر فهو استهلاك فليحفظ."

(كتاب الزكاة، باب زكاة الأموال، ج:2، ص:307، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"ولو كان الدين على مقر مليء أو على معسر أو مفلس۔۔۔فوصل إلى ملكه لزم زكاة ما مضى."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:267،266، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401102043

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں