اگر کوئی شخص اپنا سامان افغانستان کے لیے براستہ پاکستان کسی دوسرے ملک سے منگواتا ہے ، تو اس پر کسٹم کی طرف سے کچھ رقم بطور ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی ہے، اور بعض اوقات ڈیوٹی کی رقم کے مساوی رقم بینک کے پاس بطور گارنٹی رکھی جاتی ہے،اسکا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ وہ سامان افغانستان میں ہی استعمال ہو، لہذا جب وہ سامان پاکستان کی سرحد عبور کر کے افغانستان کی حدود میں داخل ہوگاوہاں سے ایک تصدیقی ثبوت فراہم کیا جاتاہے کہ یہ سامان افغانستان پہنچ چکا ہے ،وہ ثبوت بینک میں جمع کرایا جاتا ہےتو جمع کرائی گئی گارنٹی کی رقم بینک واپس کردیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جو شخص سامان باہر سے منگواتا ہے اس کے پاس بعض اوقات بینک گارنٹی کی رقم ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے ہیں تو کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں یا کمپنی ایسی ہوتی ہیں جو ایسے شخص کی جانب سے بینک میں رقم جمع کراتی ہےاور اس کے طے شدہ منافع /زیادتی اس رقم کے عوض وصول کرتی ہیں ،عموماً جمع کرائی گئی رقم کا ٪5 بطور منافع کے وصول کیا جاتا ہے ۔ کیا اس طرح اضافی رقم وصول کرنا جائز ہے ؟ اس صورت میں منافع کے طور پر پہلے سے طے شدہ تناسب کے اعتبار سے اضافی رقم لینا جائز ہے ؟
بعض افراد اور کمپنی ان کی طرف سے گارنٹی کی رقم جمع کرانے کے ساتھ مزید یہ خدمات بھی فراہم کرتی ہیں، مثلاً کسٹم کے کاغذات جمع کرانا،شپنگ کمپنی سےآرڈرو صول کرنا وغیرہ۔
بیرون ممالک سے مال درآمد کرنا، اور اس پر کسٹم والوں کو بطور ِ ڈیوٹی رقم ادا کرنا شرعاً درست ہے،اور ایک ملک سے دوسرے ملک مال لے جانے کے لئے بینک کو جو رقم بطور ضمانت ادا کی جاتی ہے وہ بھی شرعاً درست ہے،اس رقم کے ادا کرنے کا مقصد صرف اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ وہ سامان دوسرے ملک میں ہی استعمال ہو، لہذا جو رقم بطور ضمانت رکھوائی جاتی ہے وہ شرعاً درست ہے، لیکن تاجر کے بدلے کسی فرد یا کمپنی کا کسٹمر کی طرف سے رقم ادا کرکے اس رقم پر طے شدہ منافع حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اور مذکورہ خدمات کسٹم کے کاغذات جمع کرانا،شپنگ کمپنی سےآرڈرو صول کرنا ،وغیرہ پر اگر کمپنی کا کوئی خرچہ ہوتا ہے تو اس کی اجرت الگ سے متعین کر لی جائے لیکن رقم پر پراضافی چارجزوصول کرنا سودکےزمرہ میں آتاہے جو کہ حرام ہے،اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
فتاوی ٰ شامی میں ہے :
"وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن."
[مطلب كل قرض جر نفعا حرام]
(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه (قوله فكره للمرتهن إلخ) الذي في رهن الأشباه يكره للمرتهن الانتفاع بالرهن إلا بإذن الراهن اهـ سائحاني.
قلت: وهذا هو الموافق لما سيذكره المصنف في أول كتاب الرهن وقال في المنح هناك، وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي، وكان من كبار علماء سمرقند إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم.
قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطا صار قرضا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربا لا يظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح"۔
(کتاب البیوع، باب المرابحة والتولیة، فصل فی القرض،مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج :5، ص : 166،ط : سعید)
فتاوی ھندیہ میں ہے :
"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به"۔
(کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ج : 3، ص : 202، ط : دار الفکر بیروت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
ـ’’سوال : زید نے بکر سے ایک ہزار روپیہ لیا اور کہا کہ میں چالیس روپیہ ماہوار منافع سمجھ کر دیتا رہوں گا جب تک اصل رقم نہ ادا کر دوں ، زید حسب وعدہ چالیس روپیہ ماہوار منافع کا دیتارہا۔ ایک سال گزرنے کے بعد سوئے اتفاق سے زید کا کاروبار میں ہزار روپیہ کا گھاٹا ہو گیا، ذاتی رقم اور بکر کا ایک ہزار روپیہ سب خسارے میں چلا گیا ، اس پر بس نہیں بلکہ ہزاروں کا مقروض بھی ہو گیا، پھر بھی زید کسی نہ کسی طرح وعدہ کے مطابق بکر کو چالیس روپیہ ماہوار دیتا رہا۔ اور کبھی کبھی یکمشت سود و سو روپیہ بھی دیئے ،اس قسم کا معاہدہ کرنا ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں ؟
جواب : قرض پر اس طرح رقم دینے کا معاہدہ کرنا اور رقم دینا جائز نہیں، یہ یقینا سود ہے، اس کا نام منافع رکھنے سے بھی سود ہی ہے، کتب فقہ میں ہے: "کل قرض جر نفعاً حرام. در مختار (۱) یعنی جس قرض سے نفع ملے وہ حرام ہے۔‘‘
(کتاب البیوع، باب الربوا، ج : 16، ص : 342/341، ط : ادارة الفاروق کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101629
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن