ہمارے والد صاحب نے اپنی حیات میں ہماری بڑی بہن کے لئے ایک مکان خرید ا، جس میں 80 ہزار روپےکیش کی صورت میں ہمارے بہنوئی نے والد صاحب کو دیئے اور باقی پیسے والدصاحب نے ادا کئے ۔ اس وقت مکان کی قیمت تقریبا 3,50000 تھی ،اب ہمارے بہنوئی کا کہنا ہےوہ 80ہزار روپے موجودہ وقت کے حساب سے ادا کرنے ہوں گے۔ آپ ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
نوٹ : ہماری بہن نے دو دفعہ اس مکان کو تعمیر کیا۔ پہلی دفعہ مرمت کروایا، دوسری دفعہ سارا توڑ کر از سر نو مکان بنایا ۔ بہنوئی کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا۔
صورت مسئولہ میں آپ کے بہنوئی نے 80 ہزار قرض دیے تھے تو اب اسی کے مثل یعنی 80 ہزار ہی وصول کرسکتاہے اس سےزائد رقم وصول کرناجائز نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے۔
"(هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة........... (فيصح استقراض الدراهم والدنانير وكذا) كل (ما يكال أو يوزن أو يعد متقاربا....... (استقرض من الفلوس الرائجة والعدالي فكسدت فعليه مثلها كاسدة) و (لا) يغرم (قيمتها) وكذا كل ما يكال ويوزن لما مر أنه مضمون بمثله فلا عبرة بغلائه ورخصه ذكره في المبسوط من غير خلاف."
(کتاب البیوع،فصل فی القرض،ج5،ص161،ط:سعید)
العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدیۃ میں ہے:
"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".
(باب القرض، ج:1، ص279، ط: دار المعرفه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603102655
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن