بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کے بدلے لیپ ٹاپ بیچ کر دو ماہ بعد دوبارہ خریدنا/ بیع وفا


سوال

ایک بندے نے میرا 5000 روپیہ قرض دینا تھا مگر وہ دو ماہ سے مجھے ٹال رہا تھا تیسری دفعہ جب میں نے زور دیا کہ پیسے دو تو اس نے اپنا لیپ ٹاپ بغیر کسی شرط کے مجھے 5000 روپے میں بیچ دیا پھر دو ماہ بعد اسے لیپ ٹاپ کی ضرورت ہوئی تو اس نے مجھ سے مانگا تو میں نے 15000 قیمت بتائی اور وہ راضی ہو گیا لیکن اسی وقت اس نے پیسے نہیں دیے بلکہ دو ماہ کا ٹائم لے لیا۔ میں نے لیپ ٹاپ اسے دے دیا اور دو ماہ بعد اس سے 15000 لے لیے ؟ کیا یہ حلال ہونگے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے اپنے مقروض کے ساتھ صراحۃً یا اشارۃً لیپ ٹاپ واپس خریدنے کی شرط لگائی تھی تو مذکورہ معاملہ فاسد شرط لگانے کی وجہ سے شرعاً ناجائز تھا، البتہ اگر واقعۃً کسی شرط کے بغیر مذکورہ شخص نے آپ کو اپنا لیپ ٹاپ فروخت کر دیا پھر دو ماہ بعد اس کی ضرورت پر آپ نے وہ لیپ ٹاپ اسے زیادہ قیمت پر فروخت کر دیا تو یہ معاملہ شرعا جائز ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"هذا وفي الخيرية فيما لو أطلق البيع ولم يذكر الوفاء إلا أنه عهد إلى البائع أنه إن أوفى مثل الثمن يفسخ البيع معه أجاب: هذه المسألة اختلف فيها مشايخنا على أقوال. ونص في الحاوي الزاهدي أن الفتوى في ذلك أن البيع إذا أطلق ولم يذكر فيه الوفاء إلا أن المشتري عهد إلى البائع أنه إن أوفى مثل ثمنه فإنه يفسخ معه البيع يكون باتا حيث كان الثمن ثمن المثل أو بغبن يسير اهـ وبه أفتى في الحامدية أيضا، فلو كان بغبن فاحش مع علم البائع به فهو رهن، وكذا لو وضع المشتري على أصل المال ربحا، أما لو كان بمثل الثمن أو بغبن يسير بلا وضع ربح فبات؛ لأنا إنما نجعله رهنا بظاهر حاله أنه لا يقصد البات عالما بالغبن أو مع وضع الربح أفاده في البزازية".

(كتاب البيوع، تذنيب في بيع العينة، مطلب في بيع الوفاء قبيل كتاب الكفالة، 5/ 277، ط:سعيد)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"لأن القياس أن لا يصح هذا البيع أصلا كما قال زفر: لأنه بيع شرط فيه إقالة فاسدة، وهي إقالة معلقة بالشرط، والبيع ‌بشرط ‌الإقالة الصحيحة باطل فبشرط الإقالة الفاسدة أولى".

(‌‌كتاب البيوع، باب خيار الشرط، 8/ 54، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الشرط شرطا لم يعرف ورود الشرع بجوازه في صورته وهو ليس بمتعارف إن كان لأحد المتعاقدين فيه منفعة أو كان للمعقود عليه منفعة والمعقود عليه من أهل أن يستحق حقا على الغير فالعقد فاسد كذا في الذخيرة".

(كتاب البيوع، الباب العاشر في الشروط التي تفسد البيع والتي لا تفسده، 3/ 134، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں