بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض كے عوض زمین دار کو اخروٹ مقرض کو بیچنا کا پابند کرنے کا حکم اور بعض بیوع کی دیگر صورتیں


سوال

۱) ہمارے گاؤں میں ستمبر کے مہینے میں اخروٹ کا پھل تیار  ہوتا ہے  جب کہ  خریدار  اگست کے شروع سے اخروٹ کے درخت والوں کو بحسبِ  ضرورت قرض دیتا ہے؛ تاکہ اخروٹ انہیں  کو بیچے اس وقت کے مطابق ریٹ پر۔ قرض سے فائدہ ریٹ کی کمی میں نہیں ہوتا صرف اخروٹ موقعہ پر وافر مقدار میں مل جاتا ہے، کیا یہ سود ہوگا؟

۲) جون کے مہینے میں کھاد 50 کلو ادھار 20 کلو اخروٹ پر بیچتے ہیں کیا یہ عقد جائز ہے ؟ دونوں وزنی بھی ہیں اور جون کو اخروٹ موجود بھی نہیں ہوتے!

۳) اخروٹ 20 کلو نقد اور لوبیہ 20 کلو ادھار کیسا ہے ؟

جواب

۱)صورتِ  مسئولہ میں جب اخروٹ کے درخت والا  بازاری قیمت پر ہی قرض دینے والے کو اخروٹ فروخت کرتا ہے اور قرض کی وجہ سے ریٹ میں کمی نہیں کرتا تو پھر یہ معاملہ جائز ہے اور سود کے حکم میں نہیں ہے۔

۲) اگر گاؤں میں عرف اخروٹ  اور کھاد کو وزن کے ساتھ بیچنے کا ہے تو پھر  50 کلو کھاد نقد  کے بدلے 20 کلو اخروٹ ادھار پیچنا  شرعا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سودی معاملہ ہےالبتہ اس کی جائز  صورت یہ ہے کہ متعینہ قیمت کی رقم پر کھاد فروخت کردیں اور ادائیگی کے وقت رضامندی کی صورت میں رقم کے بدلے میں اخروٹ سے قیمت ادا کریں تو یہ جائز ہوگا۔

۳) اگر گاوں میں عرف اخروٹ ا ور لوبیہ دونوں کو وزن کے ساتھ بیچنے کا ہے تو پھر  20 کلو اخروٹ نقد کے عوض  20 کلو لوبیہ ادھار بیچنا   جائز نہیں ہےکیونکہ  یہ سودی معاملہ ہے۔اس میں بھی پیسے سے قیمت مقرر کر کے اخروٹ بیچ کر قبضہ دے دیں اور بعد میں پیسے کے بدلے میں رضامندی سے لوبیہ سے قیمت ادا کریں تو جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه، وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك."

(کتاب  البیوع، باب تاسع عشر ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۰۲، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويملك المقبوض بالقرض الفاسد لأن الإقراض الفاسد تمليك بمثل مجهول فيفسد وملكه بالقبض كالمقبوض في البيع الفاسد والمقبوض بحكم قرض فاسد يتعين للرد."

(کتاب  البیوع، باب تاسع عشر ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۰۱، دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن وجد القدر والجنس حرم الفضل والنساء وإن وجد أحدهما وعدم الآخر حل الفضل وحرم النساء وإن عدما حل الفضل والنساء كذا في الكافي."

(کتاب البیوع، باب التاسع، فصل سادس ج نمبر ۳ ص نمبر ۱۱۷، دار الفکر)

شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"و عليه فما تعورف بيعه وزنا في بلدة  وقد تعورف بيعه عددا او مجازفة في بلدة اخري كالبطيخ مثلا يجوز بيع بطيخة ببطيختين او حملا بحملين في بلدة التي تعورف فيها بيع البطيخ عددا اومجازفة يدا بيد حيث كان الجنس واحدا و ان لم يجز بيع رطل منه برطلين في البلدة الاخري ."

(کتاب البیوع، احکام الربا ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۴۵،مکتبہ حقانیہ پشاور)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144401101631

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں