بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ایک صورت کا حکم


سوال

میرےوالداوربھائی نےایک کروڑچالیس لاکھ کا ایک مکان خریدااورمجھےکہاکہ تم اسی لاکھ روپےاس میں دےدو،تواس کےحساب سےہم تم کوبھی شریک کردیں گے، پھر اس مکان کے دو فلورمیں سےایک فلورکاکرایہ بھی آپ کوملےگااورجب فروخت ہوگاتوتمہارےحصےکےمطابق تم کونفع بھی ملےگا، میں نےکہاٹھیک ہے، ابھی میں نےپیسے نہیں دیےتھےکہ انہوں نے مجھے کہا کہ ہم تم سےشراکت نہیں کرنا چاہتے، اس لیے پھرمیں نےاس رقم کےبدلےکسی اورمکان کوخریدناچاہا، انہوں نےمجھے کہا کہ تم یہ مکان مت خریدو،ہمیں اپنےپیسےدو،ہم تمہیں دوفلور کا کرایہ بھی دیں گے اورہم جب تک تمہیں تمہارےپیسےواپس نہ کردیں، تب تک اس مکان کی جتنی قیمت بڑھےگی ہم وہ قیمت بھی دیں گے یعنی کل رقم سمیت، اس پربھی میں راضی نہ ہوا لیکن ان کے اصرار پر میں نے ان کو اسی لاکھ کا چیک دےدیا،پھراس کےبعداب تک مجھے ایک فلورکا کرایہ  بھی دیتےرہے، اب ان کاکہناہےکہ مذکورہ رقم قرض ہےاورقرض پرنفع لیناسودہے۔

اب سوال یہ ہےکہ اس رقم کاکیاحکم ہے؟نیزاس پرمنافع کاکیاحکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پہلی مرتبہ میں اسی لاکھ روپےکےمطالبہ کےبعد جب آپ سےآپ کےوالداوربھائی نےکہہ دیا کہ’’ ہم تم سےشراکت نہیں کرناچاہتے‘‘، تو یہ کہہ کر انہوں نے مکان کی ملکیت میں آپ کے ساتھ شراکت  داری کا ارادہ ہی ختم کرنے کا اظہار کردیا ہے، پھر دوسری مرتبہ رقم کےمطالبہ اور رقم لیتے وقت انہوں نےشراکت داری کا ذکر ہی نہیں کیا اورلی گئی پوری رقم کی واپسی کےوعدےپررقم لی تو اس رقم کی حیثیت قرض کی ہوگئی، شراکت داری کی حیثیت نہیں ہوئی، لہذا اس کےبعداس پرمنافع لینا قرض پرمنافع لیناہے، جوکہ صراحتاسودہے، اس لیے کہ  ہروہ قرض جس کےساتھ منافع کی شرط رکھی گئی ہو،حرام ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےکہ:ہروہ قرض جونفع کھینچ لائے سودہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں آپ  صرف اپنی اصل رقم لینےکے حق دارہیں،اس پر نفع کے نام سے اضافہ لینا جائز نہیں ہے، نیز چونکہ معاملہ کرتے وقت اس رقم پر نفع دینے کی بات ہوئی تھی اس وجہ سے یہ معاملہ سودی ہوگیا تھا اور سودی معاملہ کرنےپرفریقین گناہ گارہوئےہیں،اس پر سچے دل سےتوبہ واستغفار لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وركنها) أي ماهيتها (الإيجاب والقبول) ولو معنى؛ كما لو دفع له ألفا وقال أخرج مثلها واشتر والربح بيننا...(قوله: الإيجاب والقبول) كأن يقول أحدهما: شاركتك في كذا ويقبل الآخر، ولفظ كذا كناية عن الشيء أعم من أن يكون خاصا كالبز والبقل، أو عاما كما إذا شاركه في عموم التجارات بحر (قوله: ولو معنى) يرجع إلى كل من الإيجاب والقبول ط (قوله: كما لو دفع له ألفا) أي وقبل الآخر وأخذها وفعل انعقدت الشركة بحر، وقوله: وأخذها عطف تفسير؛ لأن المراد القبول معنى وهو بنفس الأخذ."

(كتاب الشركة، ج:4، ص:305، ط:دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"ولا يجوز ‌قرض ‌جر ‌نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز، ويجبر الدائن على قبول الأجود، وقيل لا كذا في المحيط، وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام، والشرط ليس بلازم بأن يقرض على أن يكتب إلى بلد كذا حتى يوفي دينه۔۔۔وفي المحيط، ولا بأس بهدية من عليه القرض، والأفضل أن يتورع إذا علم أنه إنما يعطيه لأجل القرض أو أشكل فإن علم أنه يعطيه لا لأجل القرض بل لقرابة أو صداقة بينهما لا يتورع، وكذا لو كان المستقرض معروفا بالجود، والسخاء جاز."

(فصل في بيان تصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:133،ط:دارالكتاب الاسلامي)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

"كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن كما في الظهيرية وما روي عن الإمام أنه كان لا يقف في ظل جدار مديونه."

(کتاب المداینات،باب کل قرض جرنفعاً،ص:226،ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603101282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں