بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے نفع کا مطالبہ کرنا


سوال

 میرے والد کا ایک شخص کے ساتھ کاروبار تھا اور کاروبار ختم کرتے وقت میرے والد نے اس شخص سے ایک لاکھ روپے قرض لیے اور وہ رقم ہمارے والد کے ذمہ باقی رہی ،  والد صاحب انتقال کرگئے اور وہ رقم میں نے وفات کے کچھ ماہ بعد اس شخص کو واپس کردی  اور تاخیر ہونے  پر میں نے والد کی طرف سے معافی بھی مانگی، کہ ان کو بھی الله کی رضا کے لیے  معاف کردے،  اب رقم دینے کے 6 سال بعد وہ شخص منافع کا مطالبہ کر رہا ہے کہ مجھے اس وقت کے حساب سے سونے کی قیمت  کے اعتبار سے  میری  رقم دی جائے۔اس حوالے سے آپ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں راہ نمائی چاہیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد  نے جب کاروبار ختم کرکے مذکورہ شخص سے ایک لاکھ روپے لیے تو  وہ ایک لاکھ روپے سائل کے والد کے  ذمے قرض تھے، اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے  اضافی رقم لینا سود ہے، جو کہ ناجائز وحرام اور اللہ تعالی کےساتھ اعلان جنگ ہے،  لہذا سائل نے جب والد کی طرف سے مذکورہ شخص کو  رقم لوٹا دی تو اب والد کے ذمہ جو قرضہ تھا وہ ادا ہوگیا ، مذکورہ شخص کا اس قرضہ کے اوپر نفع  کا مطالبہ اور اس وقت کے سونے کی قیمت کے حساب سے رقم کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے ۔

قرآن مجید میں ہے:

"يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓاْ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (٢٧٨) فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ فَأۡذَنُواْ بِحَرۡبٖ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۖ وَإِن تُبۡتُمۡ فَلَكُمۡ رُءُوسُ أَمۡوَٰلِكُمۡ لَا تَظۡلِمُونَ وَلَا تُظۡلَمُونَ (٢٧٩) وَإِن كَانَ ذُو عُسۡرَةٖ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيۡسَرَةٖۚ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيۡرٞ لَّكُمۡ إِن كُنتُمۡ تَعۡلَمُونَ".

(سورۃ البقرۃ، اٰیت:280)

السنن الكبرى للبیہقی میں ہے:

"عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا".

(كتاب البيوع، باب كل قرض جر منفعة فهو ربا، ج:5، ص:573، رقم:10933، ط: دار الكتب)

فتاوى شامي میں ہے:

"وفي الأشباه ‌كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن".

وفي الرد:

"(قوله ‌كل ‌قرض ‌جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به".

(كتاب البيوع، باب المرابحة، فصل في القرض، ج:5، ص:166، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100857

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں