میں نے اپنے محکمہ سے پلاٹ خریدنے کی غرض سے ویلفیئر لون لیا، جس کی اقساط پیشگی کٹنا شروع ہو گئیں، مصروفیت کی بنا پر پلاٹ نہ خرید سکا اور رقم کو میرے پاس ایک سال گزر گیا تو کیا اس قرض کی رقم پر بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی؟
اگر کوئی شخص طویل المیعاد قرض لے (یعنی ایسا قرض جس کی ادائیگی آہستہ آہستہ کئی سالوں میں کرنی ہو )تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ ہر سال دیگر قابلِ زکاۃ اموال کی زکاۃ کی ادائیگی کے وقت اس سال واجب الادا قرضہ (یعنی مکمل قرضہ میں سے جتنی مقدار ادا کرنا اسی سال ذمہ پر ہو اس) کے بقدر منہا کر کے باقی کی زکاۃ ادا کی جائے گی بشرطیکہ باقی مالِ نامی (سونا چاندی، نقدی، مالِ تجارت) نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) تک پہنچ رہا ہو۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ ایک سال کی قسطوں کو منفی کرکے باقی مال کی زکاۃ ادا کریں گے بشرطیکہ وہ مال تنہا یادیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچتا ہو۔
نوٹ: اگر ادارے کی جانب سے مذکورہ قرضہ سود پر دیا جاتا ہو یعنی جتنا قرضہ دیا ہو قسطوں کی صورت میں ادارہ اس سے کچھ زیادہ وصول کرتاہو تو اس طرح کا سودی قرضہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ سودی قرضہ کا لین دین بنصِ قرآنی ناجائز اور حرام ہے، ایسی صورت میں سودی قرض سے جان خلاصی واجب ہوگی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201966
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن