بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض کی رقم واپس کرتے ہوئے اضافی رقم دینے کا حکم


سوال

 میرا جیز کیش کا کام ہے، اور ایسے ہی میں نے اپنے گاہک کے مطلوبہ نمبرز وغیرہ پر جیز کیش کیا، جس کی ادائیگی میں اس نے دو مہینے کی تاخیر کر دی ، جس پر اس نے خود کہا کہ میں آپ کو ستائیس ہزار دے دوں گا، اور ایسا معاملہ نہیں ہوا کہ جیز کیش کرتے وقت ہم نے ادائیگی مقررہ رقم سے زیادہ کہی ہو یا کوئی شرح سود کو لاگو کیا ہو  تو کیا ایسے میں اگر وہ ستائیس ہزار روپے دینا چاہے تو وہ سود میں شامل ہوں گے یا نہیں؟ براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ قرض کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، شریعتِ مطہرہ کا مسلمہ اصول ہے :’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘ یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) ہی ہوگی، اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا، البتہ اگر کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اسے اجر و ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو،  لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح بلا شرط بطور ِتبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے، لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

 حدیث شریف میں ہے :

'' عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً»''.

( الصحيح لمسلم: كتاب البيوع، باب من استسلف شيئّا فقضى خيرا منه وخيركم أحسنكم قضاء، 5 / 54 ط: دار الطباعة العامرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں