(1) اگر میت پر قرض ہو تو کیا میت کی روح معلق رہتی ہے؟
(2)کوئی شخص اپنے ذمے قرض لے لے لیکن ادائیگی میں ٹال مٹول کرے ، مانگنے پر بہانا کرے، یا معاف کرنے کو کہے، حالا نکہ میت کے ایک تہائی ترکہ سے ان قرضوں کی ادائیگی ممکن بھی ہے ایسی صورت میں میت کی روح کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟
اور قرض اپنے ذمے لینے والے کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا؟
(3)میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، ورثاء میں پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، والد صاحب کے ترکہ میں ایک دکان ہے، جس میں دو بھائی کاروبار کرتے ہیں، اور اس دکان کا کرایہ ادا کرتے ہیں، دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس دکان کے کرائے میں یہ دونوں بھائی بھی حصے دار ہوں گے کہ نہیں؟
واضح رہے کہ والد صاحب نے میری ہمشیرہ کی شادی کے بعد ایک مکان ان کو دلایاتھااور کہا تھاکہ یہ مکان آپ کا ہے دیگر جائیداد میں آپ کا کوئی حصہ نہیں ہوگااور وہ اس پر راضی بھی تھی ۔
(4)شریعت میں کرائے کی مقدار کی تعیین کیسے ہوتی ہے،مثلاً دکان ایک کروڑ کی ہوتو کرایہ کتنا متعین ہوگا؟
(5)شرعی اعتبار سے میراث کی تقسیم کب ہونی چاہیےکوئی مدت متعین ہے؟
(6) بہن ، بھائیوں میں سے کوئی میراث کی تقسیم سے پہلے اپنے شرعی حصے سے زیادہ جائیداد اپنی تحویل میں لے لے اور تقسیم نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
(7)حدیث شریف کا جو مفہوم ہے کہ’’ کوئی کسی کی میراث ختم کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی میراث ختم کر دیتے ہیں،
کیا اس حدیث کے مصداق میں’ میراث روکنے والا‘ اور بغیر تقسیم کیے کئی سال نکال دینے والا شخص شامل ہے؟
(1)مقروض میت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مقروض مومن کی روح قرض کے ساتھ اس وقت تک معلق (اٹکی) رہتی ہے جب تک وہ قرض اس کی جانب سے ادا نہ کر دیا جائے۔،یعنی جن نعمتوں اور انعامات کا وہ مستحق ہوتا ہے وہ اس سے روک دیے جاتے ہیں،لہذا حتی الامکان قرض لینے سے اجتناب کرناچاہیے، اگر بوجۂ مجبوری قرض لینے کی نوبت آجائےتو لوٹانے کی فکر کرنی چاہیے۔
(2)میت کے ترکے سے سب سے پہلے میت کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد بقیہ ترکے سے میت کے قرضوں کی ادائیگی کا بندوبست کرنا ورثاء پر واجب ہے، اگرچہ قرضوں کی ادائیگی میں میت کا کل ترکہ ختم ہوجائے،ترکے سے مرحوم کا قرضہ ادا نہ کرنااور اُسے آپس میں تقسیم کرلیناشرعاً جائز نہیں،ورثاء کا حق قرضہ کی ادائیگی کے بعد باقی رہ جانے والے ترکہ میں ہوتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں میت کے قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری میت کے ورثاء میں سے کسی وارث نے اپنے ذمہ لی تھی، تو اس ذمہ داری کو پوری کرے اگر از خود ادا کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو ترکے سے ادا کرےذمہ داری لینے کے بعد ادائیگی کی استطاعت ہوتے ہوئےٹال مٹول کرنا گناہ ہے۔
(3)صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃً سائل کے والد نے اپنی زندگی ہی میں سائل کی ہمشیرہ کو دیگر جائیداد سے دستبرداری کے معاہدے کےساتھ مکان دلایا تھا،اور سائل کی ہمشیرہ اس معاہدے پر راضی بھی تھی تو اب سائل کے والد کی دیگر جائیداد میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور اب سائل کے والد کی جائیداد میں ان کے تمام ورثاء(مرحوم کے پانچوں بیٹے)برابر کے حصہ دار ہوں گے، نیز سائل کے والد کی ترکہ میں موجود دکان کا کرایہ بھی تمام ورثاء(پانچوں بیٹے)کے درمیان برابر تقسیم ہو گا ۔
(4)واضح رہے کہ شریعت کی رو سے کرائے کی کوئی حد مقرر نہیں ، بلکہ متعاقدین اپنی رضامندی سے جو بھی کرایہ مقرر کر لیں یہ ان کی صواب دید پر ہے، البتہ متعاقدین میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت کرے کوئی بھی دوسرے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائے، بہتر یہی ہے کہ اس علاقے میں عموماًجو کرایہ مقرر کیا جاتا ہےاس کا اعتبار کریں تاکہ بد گمانی اور حق تلفی نہ ہو۔
(5)میراث کی تقسیم کے سلسلے میں شریعت کاحکم یہ ہے کہ جیسے ہی مورِث کا انتقال ہو جائے تو میت کی تجہیز و تکفین کے بعد سب سے پہلےمیت کے ذمے قرض وغیرہ ہو تو اسے ادا کرنے اور میت نے کوئی جائز مالی وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکے سے نافذ کرنے کے بعدبقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان جلدازجلد تقسیم کردیا جائے، کیوں کہ مورِث کے انتقال ہوتےہی ان املاک میں ورثاء کا حق متحقق ہوجاتاہےاور حق دار تک ان کا حق پہنچانے میں بلا وجہ تاخیر یا تساہل سے کام لینا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے اورمیراث کی تقسیم میں تاخیرکی وجہ سے کئی تنازعات پیدا ہو جاتی ہیں، لہذا حتی الامکان میراث کو جلد از جلد تقسیم کرلینا چاہیے۔
(6)ترکے کی تقسیم سے پہلے کسی بھی وارث کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر ترکے میں کسی قسم کا تصرف کرے یا تقسیم سے پہلے اپنے حصے سے زیادہ جائیداد اپنی تحویل میں لے، ایسا کرنے سے ورثاء کو ان کے حصے سے محروم کرنا یاان کی حق تلفی کرنا لازم آتا ہے اور احادیثِ مبارکہ میں ایسے شخص کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، لہذا جو وارث تقسیم کا ذمہ دار ہو اُسے چاہیے کہ ورثاءتک ان کا پورا پورا حق پہنچانے کا اہتمام کرے ۔
(7)واضح رہے کہ دانستہ طور پر کسی وارث کو میراث سے محروم کرنا یا بلاوجہ تقسیمِ میراث میں تاخیر کرنا انتہائی ناپسندہ اور قبیح فعل ہے،اس سےحتی المقدور اجتناب کرنا چاہیے، باقی سوال میں مذکور حدیث کا مصداق وارث کو میراث سے محروم کرنے والا ہے۔
ترمذی شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه‘‘."
(باب ما جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه ج:3، ص:381، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)
مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"نفس المؤمن معلقة بدينه حتى يقضى عنه .... فقيل: أي محبوسة عن مقامها الكريم، وقال العراقي: أي: أمرهاموقوف لا يحكم لها بنجاة ولا هلاك حتى ينظر، أهل يقضى ما عليه من الدين أم لا؟.. سواء أترك الميت وفاء أم لا كما صرح به جمهور أصحابنا"
(كتاب البيوع، باب السلم والرهن، ج:5، ص:1948، ط:دار الفكر بيروت لبنان)
شرح السنة للبغوی میں ہے:
"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من أخذ أموال الناس يريد أداءها، أدى الله عنه، ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله." {هذا حديث صحيح}
(كتاب البيوع، باب التشديد في الدين، ج:8، ص:202، ط:المكتب الإسلامي دمشق بيروت)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
البحرالرائق میں ہے:
"إذا تكفل بعض الورثة بأمر المريض وكان له مال غائب هل يطالب الكفيل بقضاء دين الميت من ماله ثم يرجع في التركة أو لا ؟....ولهذا قال في السراج الوهاج أن الورثة يطالبون بدين مورثهم بلا ضمان والضمان ما زاده إلا تأكيدا، وقيد في الهداية المسألة بأمر المريض لورثته لأن الورثة لو قالوا ضمنا للناس كل دين لهم عليك ولم يطلب المريض ذلك منهم والغرماء غيب لم يصح ولو قالوا ذلك بعد موته صحت الكفالة وروي عن أبي حنيفة جواز كفالتهم في مرضه وإن لم يطلب المريض منهم ذلك كذا في السراج الوهاج والخانية وفي البدائع، وأما مسألة المريض فقد قال بعض مشايخنا: إن جواز الضمان بطريق الإيصاء بالقضاء عنه بعد موته لا بطريق الكفالة وبعضهم أجازوه على سبيل الكفالة ووجه ما أشار إليه أبو حنيفة في الأصل، وقال هو بمنزلة المعبر عن غرمائه،... ولو قال أجنبي للورثة اضمنوا الغرماء فلان عنه فقالوا ضمنا يكتفى به فكذا المريض."
(كتاب الكفالة، الكفالة بحمل دابة، ج:6، ص:253، ط:دار الكتاب الإسلامي)
الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:
"قوله (ولا ينبغي للسلطان أن يسعر على الناس) لما روي أن ’’السعر غلا في المدينة فقالوا يا رسول الله لو سعرت فقال إن الله تعالى هو المسعر القابض الباسط الرازق‘‘ ولأن الثمن حق العاقد فإليه تقديره فلا ينبغي للإمام أن يتعرض لحقه إلا إذا تعلق به دفع ضرر العامة."
(بيع السلاح في أيام الفتنة، ج:2، ص:286، ط:المطبعة الخيرية)
الدر المختار میں ہے:
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"
( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)
فتاوی عالمگیریہ میں ہے :
"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره."
(کتاب الشرکة ،ج:2،ص:301،ط:رشیدیة)
مشکا ۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»." (رواه ابن ماجه)
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے وارث کی میراث کاٹی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث کاٹ دے گا۔
(كتاب الفرائض والوصايا، باب الوصايا،الفصل الثالث، ج:2، ص:926، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن