میں کماد کاشت کرتا ہوں اور مِل کو فروخت کرتا ہوں، اب مل کی طرف سے قرض کی پیشکش کی جارہی ہے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ مثلاً اگر دس لاکھ لیا جائے تو اس کی واپسی گنّے کی صورت میں کی جائے گی، یعنی مل کو جب گنا بھیجیں گے تو وہ اپنا قرض مع پندرہ فی صد نفع کے ساتھ کاٹ لیں گے، کیا یہ قرض کی صورت سود میں شامل ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ قرض خواہ کے لیے قرض کے بدلے اصل رقم کا لینا یا اس کے بدلے میں رضامندی سے کوئی اور چیز لینا اور دینا جائز ہے، لیکن اپنا قرض مع پندرہ فیصد نفع کے ساتھ کاٹ لینا جائز نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مل والے اگر قرض دے کر گنّا لے رہے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جتنی رقم قرض دے اسی کے بقدر گنّا لے، مل والے کے لیے بطورِ نفع پندرہ فیصد کاٹ کر رقم یا گنّا لینا جائز نہیں ہے، اور یہ سراسر سودی معاملہ ہے، اور سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."
(كتاب البيوع، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا فهو حرام، ج: 5، ص: 166، ط: دار الفكر بيروت)
وفيه أيضاً:
"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين).
(کتاب البیوع، مطلب في بيان الثمن والمبيع والدين، ج: 5، ص: 152، ط: دار الفكر بيروت)
وفيه أيضاً:
"(و) فيها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر."
(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج: 5، ص: 165، ط: دار الفكر بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144402100922
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن