بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پرنفع وصول کرنےکی شرط پرقرض دینا


سوال

 ایک شخص نے قرض لیا یہ بات کہہ کر کہ میں اس سے کاروبار کروں گا اور آپ اپنی  رقم قرض کے طور پر مجھے دے دیں، اس پہ آپ کو پرافٹ(منافع) بھی آئے گا۔

جواب

واضح رہےکہ ہروہ قرض جس کےساتھ منافع کی شرط رکھی گئی ہو،حرام ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےکہ:ہروہ قرض جونفع کھینچ لائے سودہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں  نفع کی شرط کےساتھ قرض کالین دین حرام ہے،قرض خواہ صرف اپنی اصل رقم لینےکاحق دارہے،نیزسودی معاملہ کرنےپردونوں گناہ گارہوئےہیں،اس پر سچےدل سےتوبہ واستغفار لازم ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"ولا يجوز ‌قرض ‌جر ‌نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر فإن قضاه أجود بلا شرط جاز، ويجبر الدائن على قبول الأجود، وقيل لا كذا في المحيط، وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام، والشرط ليس بلازم بأن يقرض على أن يكتب إلى بلد كذا حتى يوفي دينه۔۔۔وفي المحيط، ولا بأس بهدية من عليه القرض، والأفضل أن يتورع إذا علم أنه إنما يعطيه لأجل القرض أو أشكل فإن علم أنه يعطيه لا لأجل القرض بل لقرابة أو صداقة بينهما لا يتورع، وكذا لو كان المستقرض معروفا بالجود، والسخاء جاز."

(فصل في بيان تصرف في المبيع والثمن قبل قبضه،ج:6،ص:133،ط:دارالكتاب الاسلامي)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

"كل ‌قرض ‌جر ‌نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن كما في الظهيرية وما روي عن الإمام أنه كان لا يقف في ظل جدار مديونه."

(کتاب المداینات،باب کل قرض جرنفعاً،ص:226،ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں