بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض واپسی کے وقت زائد رقم بطور ہدیہ دینا


سوال

 قرض پر اضافی پیسے لینا کیسا ہے ؟میں نے اپنے لیے موبائل خریدنے کے لیے  پیسے جمع کیے تھے ، وہ پیسے میں نے کسی کو قرض کے طور پر دے دیے اور اس شرط پر کہ   وہ مجھے اضافی پیسے دیں گے اور وہ روزانہ مجھے قسطوں پر پیسے دیتے رہے، جب اس نے 8 ہزار روپے  اضافی سود ادا کردیا  تو میرے دل میں اللہ  کا خوف آیا اور میں نے  اس کو وہ پیسے واپس کر دیے، تو  مقروض کہنے لگے کہ آپ ان پیسوں سے کیا کرنا چاہتے ہیں؟ تو میں نے کہا موبائل خرید نا ہے، تو اس نے مجھے 3 ہزار روپے دے دیے اپنی طرف سے موبائل خریدنے کے لیے، لیکن میں نہیں لے رہا تھا، اس نے کہا یہ میری طرف سے گفٹ ہے، اب یہ سود نہیں ہے ،تو میں نے 3 ہزار روپے لے لیے، پھر میں نے کسی وجہ سے موبائل نہیں خریدا اب میرے لیے وہ رقم استعمال کرنا جائز ہے یا سود ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قرض دیتے ہوئے وصولی کے وقت قرض  سے زائد رقم لینے  کی شرط لگانا سود ہے اور سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور برا ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِيَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}

ترجمہ:’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔

[البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔

     خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین قرآن وحدیث کی رو سے حرام ہے۔نیز اسلام میں جس طرح سود لینا حرام وناجائز ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام وناجائز ہے اور احادیثِ  مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں، سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، اس لیے سودی معاہدہ کرنااور سود کی بنیاد پر قرضہ لینا جائز نہیں ہے۔ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ سود بلکہ سود کے شبہ  سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کا قرض دیتے ہوئے قرض سے زائد رقم وصول کرنے کی شرط لگانا اور وصول کرناحرام اور ناجائز تھا ،البتہ خدا تعالی کے خوف سے آپ کا اپنی غلطی پر نادم ہونا اور سود کی رقم واپس کرنا یقیناًبہت اچھا عمل تھااور اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے آپ سود کا لین دین کرنے والوں کی وعیدوں میں شامل نہیں ہوں گے،نیزسود واپس کرنے کے بعد مقروض کا اپنی طرف سے کچھ رقم ہدیہ کرنا جائز ہے اور آپ کے لیے مذکورہ رقم(3000) استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے سود کھانے والےپر، سود کھلانے والے پر، سودی معاملہ کے لکھنے والے پر اور سودی معاملہ میں گواہ بننے والوں پر اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب (سود کے گناہ میں )برابر ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «اجتنبوا السبع الموبقات» قالوا: يا رسول الله، وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات»."

(صحيح البخاري، باب الربوا، ج:8، ص:175، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرامنے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کون سے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرما: (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔  

صحیح مسلم میں ہے:

عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكرا، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، ‌فأمر ‌أبا ‌رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خيارا رباعيا، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاء».

( صحيح مسلم،كتاب المساقاة، باب الربا،ج:3، ص:1224، رقم الحديث:1600)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101356

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں