ہم چار بھائی ہیں، ہم نے اپنے ایک مشترکہ پلاٹ پر ایک مارکیٹ تعمیر کر لی ہے، جس پر سارا خرچہ صرف ایک بھائی کا ہوا ہے، معاہدہ یہ ہوا ہے کہ جب مارکیٹ کرایہ پر لگے گی تو اس کے کرایہ میں سے بھائی کے پیسے دیئے جائیں گے، لہذا جب تک مارکیٹ کے کرایہ میں سے تعمیر کا خرچہ نہ دیا جائے، تب تک کسی دوسرے بھائی کو کرایہ میں سے کچھ لینے کا حق نہیں ہوگا، چناں چہ مارکیٹ کو مکمل ہوئے تین سال ہوگئے ہیں، لیکن اب تک مارکیٹ کرایہ پر نہیں لگی، اس لیے بھائی کے پیسوں میں سے ایک پیسہ بھی واپس نہیں دیا جا سکا۔ بھائی کی تقریبا پانچ کروڑ سے زیادہ رقم تعمیر پر خرچ ہوئی ہے، جس کی ہر سال وہ زکوۃ ادا کر رہا ہے اور معلوم نہیں کہ مارکیٹ کب کرایہ پر لگے گی اور پھر بھائی کی رقم پوری ہونے پر کتنا عرصہ لگے گا؟ اب پوچھنا یہ ہے کہ مارکیٹ پر جو پیسے خرچ ہوئے ہیں کیا ان پر زکوۃ واجب ہوتی ہے یا نہیں؟ اور ان کی زکوۃ کس کے ذمہ واجب ہوگی؟ جس بھائی کے پیسے لگے ہیں یا اجتماعی طور پر سب بھائیوں کی اجتماعی آمدنی پر؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مارکیٹ کی تعمیر میں سب کا مقصد اگر یہ تھا کہ مارکیٹ بنا کر فروخت نہیں کریں گے، بلکہ کرایہ پر دیں گے اور کرایہ استعمال کریں گے تو اس صورت میں مارکیٹ کی مالیت پر کسی بھی بھائی کے ذمہ زکوۃ نہیں آئے گی، البتہ جس بھائی نے تعمیرات میں بقیہ تین بھائیوں کی تعمیرات کے پیسے ادا کیے ہیں وہ پیسے دیگر بھائیوں کے ذمے قرض ہیں، ان تین حصوں کی زکوۃ اسی بھائی (جس نے تعمیرات پر خرچہ کیا ہے)کے ذمے لازم ہو گی، اور مذکورہ بھائی اپنے حصے (چوتھائی حصہ) کو منہا کر کے بقیہ رقم کی زکوۃ خود ادا کرے گا۔
لیکن اگر مارکیٹ کی تعمیر کا مقصد یہ تھا کہ بننے کے بعد اس کو فروخت کریں گے تو پوری مارکیٹ کی مالیت پر زکوۃ آئے گی ، اس صورت میں ہر بھائی کے ذمے اپنے حصہ کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہو گی۔
نیز قرضہ پر زکوۃ فی الفور واجب نہیں ہوگی، بلکہ جتنا قرضہ وصول ہوتا جائے گا اسی کے بقدر زکوۃ ادا کرنا واجب ہوگی، البتہ اگر پہلے سے ادا کر دی تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ".
(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال، ج: 2، ص: 305، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ومنها الملك المطلق... فلا تجب الزكاة في المال الضمار عندنا خلافا لهما.وتفسير مال الضمار هو كل مال غير مقدور الانتفاع به مع قيام أصل الملك كالعبد الآبق والضال، والمال المفقود، والمال الساقط في البحر، والمال الذي أخذه السلطان مصادرة، والدين المجحود...".
(کتاب الزکاۃ، فصل الشرائط التي ترجع إلى المال، ج: 2، ص: 88، ط:مکتبة الوحیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608100437
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن