بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قصیدہ بہاریہ کے لفظ حامی کار کی وضاحت


سوال

کیا نبی کریم کو حامی سمجھنا شرک ہے ؟ جیسے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے قصیدہ بہاریہ میں حامی کار کہا ہے ۔

کروڑوں جرموں کے آگے یہ نام کا اسلام
کرے گا یا نبی اللہ کیا مرے پہ پکار

برا ہوں بد ہوں گنہگار ہوں پہ تیرا ہوں
ترا کہیں ہیں مجھے گو کہ ہوں میں ناہنجار

لگے ہے سگ کو ترے میرے نام سے گو عیب
پہ تیرے نام کا لگنا مجھے ہے عزّ وقار

تو بہترین خلائق میں بد ترین جہاں
تو سرور دو جہاں میں کمینہ خدمت گار

بہت دنوں سے تمنا ہے کیجیے عرض حال
اگر ہو اپنا کسی طرح تیرے در تک بار

وہ آرزوئیں جو ہیں مدتوں سے دل میں بھریں
کروں میں کھول کے دل اور نکالوں دل کا بخار

کشش پہ تیری لئے اپنا بار بیٹھے ہیں
تکے ہے تیری طرف کو یہ اپنا دیدہ زار

مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسم بےکس کا کوئی حامئ کار

جو تو ہی ہم کو نہ پوچھے تو کون پوچھے گا
بنے گا کون ہمارا ترے سوا غم خوار

لیا ہے سگ نمط ابلیس نے مرا پیچھا
ہُوا ہے نفس موا سانپ سا گلے کا ہار

رجاء و خوف کی موجوں میں ہے امید کی ناؤ
جو تو ہی ہاتھ لگائے تو ہووے بیڑا پار

امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید ہے یہ
کہ ہو سگان مدینہ میں میرا نام شمار

جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو مور و مار

جو یہ نصیب نہ ہو اور کہاں نصیب مرے
کہ میں ہوں اور سگان حرم کی تیرے قطار

اڑا کے باد مری مشت خاک کو پس مرگ
کرے حضور کے روضہ کے آس پاس نثار

ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچئہ اطہر میں تیرے بن کے غبار

ہوس نہیں مجھے اس سے بھی کچھ رہی لیکن
خدا کی اور تری الفت سے میرا سینہ فگار

لگے وہ تیر غم عشق کا مرے دل میں
ہزار پارہ ہو دل خون دل میں ہو سرشار

تمہارے عشق میں رو رو کے ہوں نحیف اتنا
کہ آنکھیں چشمہء آبی سے ہوں درون غبار

ہُوا اشارہ میں دو ٹکڑے جوں قمر کا جگر
کوئی اشارہ ہمارے بھی دل کے ہو جا پار

یہ کیا ہے شور و غل اتنا سمجھ تو کچھ قاسم
نہ کچھ بڑا ترا رتبہ نہ کچھ بلند تبار

تو تھام اپنے تئیں حد سے پا نہ دھر باہر
سنبھال اپنے تئیں اور سنبھل کے کر گفتار

ادب کی جا ہے یہ چپ ہو تُو اور زباں کر بند
وہ جانے چھوڑ اسے پر نہ کر تُو کچھ اصرار

دل شکستہ ضروری ہے جوش رحمت کو
گرے باز کہیں جب تلک نہ دیکھے شکار

وہ آپ رحم کریں گے مگر سنیں تو سہی
شکست شیشہء دل کی ترے کبھی جھنکار

بس اب درود پڑھ اس پر اور اس کی آل پہ تو
جو خوش ہو تجھ سے وہ اور اس کی عترت اطہار

الٰہی اس پہ اور اس کی تمام آل پہ بھیج
وہ رحمتیں کہ عدد کر سکے نہ ان کو شمار

جواب

واضح رہے کہ  ان اشعار میں حامی کا ر کا  مطلب ومفہوم یہ   ہے کہ    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے  سوا  شفاعت کر نے والا کوئی نہیں ہے    ، لہذا  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حامی کار کہنا شرک نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو طلب کیا جایا رہا ہے ۔

صحیح بخاری میں ہے : 

"عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه کان إذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبدالمطلب رضي الله عنه فقال: اللهم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا ﷺ فتسقینا، وإنا نتوسل إلیک بعم نبینا فاسقنا! قال: فیسقون".

( کتاب العیدین، أبواب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، (1/137) و کتاب المناقب، ذکر عباس بن عبدالمطلب، (1/526) ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ قحط کے زمانے میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے، چناں چہ یوں کہتے تھے: اے اللہ ہم آپ سے اپنے نبی ﷺ کے وسیلے سے دعاکرکے بارش طلب کرتے تھے، اب آپ ﷺ کے چچا کے وسیلے سے آپ سے بارش کی دعا کرتے ہیں، چناں چہ بارش ہوجاتی ۔

القاموس الوحید میں ہے : 

"حامی عنہ  دفاع کرنا ،حمایت کرنا ، وکالت کرنا ".

(حمی ،۳۸۰، ادارا اسلامیات)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503100079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں