بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

قتلِ خطاء کی دیت مقتول کی میراث ہے ، چار بطن کا مناسخہ


سوال

میرے والد کا ایکسیڈنٹ  حادثہ میں انتقال ہوا ، جس محکمہ میں  والد صاحب  کا م کرتے تھے ، انہو ں نے اس کار والے کو پکڑا ، جس نے والد صاحب کو مارا تھا  اور اس سے دیت میں ہمیں  عزیز آباد میں  ایک مکان دلوایا ، مکان دو بھائیوں کے  نام الاٹ ہو گیا ، باقی دو بھائی چوں کہ چھوٹے تھے ، اس لیے کاغذات میں ان کا نام نہیں آسکا ۔

پوچھنا یہ ہے کہ اس مکان  میں دیگر ورثاء کا کوئی حق ہے؟ یا یہ مکان صرف انہیں دو بھائیوں کا ہے ، جن کے نام پر ہے ؟ ان بھائیوں کی بیویوں میں سے ایک کی بیوی نے ہم پر کیس کردیا، ان کا دعوی ہے کہ یہ مکان صرف انہیں دونوں بھائیوں کا ہے ، کیا ان کا یہ دعوی شرعاً درست ہے ؟

مرحوم کے ورثاء میں بیوہ ، چار بیٹے تھے ۔

پھر ایک بیٹے   زید  کا انتقال ہوا ، ورثا ء میں بیوہ ، ایک بیٹا  بکر  اور دو بیٹیاں   تھیں ۔

پھر  زید کے بیٹے    بکر  کا انتقال ہوا ، ورثاء میں والدہ  ، دو بہنیں ، تین چچا تھے ۔

پھر اس کے بعد  عمرو کی بیوہ کا انتقال ہوا ، ورثا ء میں تین بیٹے ہیں ۔

اگر مکان میں تمام ورثا ء کا حق ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ بتادیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان جو کہ محکمہ نے کار والے سے سائل کے   والد کی  دیت میں لیا تھا ، پھر وہ مکان  سائل کے دو بڑے بھائیوں کے نام  ان کے بڑے ہو نے کی وجہ سے الاٹ ہو گیا  تو  اس سے شرعاً وہ مکان ان دو بھائیوں کی ملکیت نہیں ہوا ، بلکہ  وہ سائل کے والد کی میراث ہے اور اس  میں  مرحوم کے تمام ورثا ء کا حق ہے  ؛ لہذا وہ مکان تمام ور ثا ء میں ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے  تقسیم ہوگا ، سائل کے بھائی کی بیوی  کا یہ دعوی کرنا کہ  یہ مکان دونوں بھائیوں کا ہے ،  درست نہیں ، نیز بھائی کی بیوی کا   سائل اور دیگر ورثاء  کے خلاف کیس دائر کرنا بھی  شرعاً غلط ہے ۔

  سائل  کے والدکےترکہ کی  شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ   سائل کے والد مرحوم کے ترکہ  میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے  کے بعد ، اگر مرحوم پر کوئی قرض   ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور   اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال  کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد ،باقی متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ  کے کل  27648 حصے کئے جائیں گے  ، جس میں سےمرحوم کے ہر زندہ بیٹے کو 7655  حصے ، مرحوم  بیٹے علاؤالدین کی بیوہ کو 1113 حصے اور  ہر بیٹی کو1785  حصےملیں گے ۔  

میت : (والد) ، مسئلہ : 8 / 32 / 3072 / 27648

بیوہبیٹا (زید)بیٹابیٹابیٹا
17
47777
384فوت شد672672672
3456-604860486048
فوت شد----

میت : (زید) ، مسئلہ : 24 / 96  ، مافی الید : 7

والدہ بیوہبیٹا  (بکر)بیٹی بیٹی 
4317
1612341717
11284238119119
1008756فوت شد10711071
فوت شد----

میت : (بکر)  ، 6 / 18 / 9 ، مافی الید : 238 / 119

والدہ بہنبہنچچاچچاچچا
1441
366111
357714714119119119

میت : (والدہ) ، مسئلہ : 3 / 1  ، مافی الید : 4464 / 1488 

بیٹابیٹابیٹا
111
148814881488

یعنی سو روپے میں سے مرحوم کے ہر زندہ بیٹے کو 27.6873روپے ، مرحوم کے بیٹے مرحوم  زید کی بیوہ کو 4.0256روپے اور  ہر بیٹی کو6.456  روپے  ملیں گے ۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم دية الخطأ على أهل القرى ...قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن العقل ميراث بين ورثة القتيل على قرابتهم، فما فضل فللعصبة."

( کتاب الدیات، باب دیة الأعضاء : 4 ، 189 ، ط : المکتبة العصریة)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ثمّ ‌دية ‌المقتول تكون ميراثًا عنه لجميع ورثته كسائر أمواله عندنا."

(كتاب الفرائض، باب ميراث القاتل: 30 / 49، ط: دار المعرفة)

فقط و اللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144305100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں