میرے والد کا ایکسیڈنٹ حادثہ میں انتقال ہوا ، جس محکمہ میں والد صاحب کا م کرتے تھے ، انہو ں نے اس کار والے کو پکڑا ، جس نے والد صاحب کو مارا تھا اور اس سے دیت میں ہمیں عزیز آباد میں ایک مکان دلوایا ، مکان دو بھائیوں کے نام الاٹ ہو گیا ، باقی دو بھائی چوں کہ چھوٹے تھے ، اس لیے کاغذات میں ان کا نام نہیں آسکا ۔
پوچھنا یہ ہے کہ اس مکان میں دیگر ورثاء کا کوئی حق ہے؟ یا یہ مکان صرف انہیں دو بھائیوں کا ہے ، جن کے نام پر ہے ؟ ان بھائیوں کی بیویوں میں سے ایک کی بیوی نے ہم پر کیس کردیا، ان کا دعوی ہے کہ یہ مکان صرف انہیں دونوں بھائیوں کا ہے ، کیا ان کا یہ دعوی شرعاً درست ہے ؟
مرحوم کے ورثاء میں بیوہ ، چار بیٹے تھے ۔
پھر ایک بیٹے زید کا انتقال ہوا ، ورثا ء میں بیوہ ، ایک بیٹا بکر اور دو بیٹیاں تھیں ۔
پھر زید کے بیٹے بکر کا انتقال ہوا ، ورثاء میں والدہ ، دو بہنیں ، تین چچا تھے ۔
پھر اس کے بعد عمرو کی بیوہ کا انتقال ہوا ، ورثا ء میں تین بیٹے ہیں ۔
اگر مکان میں تمام ورثا ء کا حق ہے تو اس کی تقسیم کا طریقہ بتادیں ۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان جو کہ محکمہ نے کار والے سے سائل کے والد کی دیت میں لیا تھا ، پھر وہ مکان سائل کے دو بڑے بھائیوں کے نام ان کے بڑے ہو نے کی وجہ سے الاٹ ہو گیا تو اس سے شرعاً وہ مکان ان دو بھائیوں کی ملکیت نہیں ہوا ، بلکہ وہ سائل کے والد کی میراث ہے اور اس میں مرحوم کے تمام ورثا ء کا حق ہے ؛ لہذا وہ مکان تمام ور ثا ء میں ان کے شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم ہوگا ، سائل کے بھائی کی بیوی کا یہ دعوی کرنا کہ یہ مکان دونوں بھائیوں کا ہے ، درست نہیں ، نیز بھائی کی بیوی کا سائل اور دیگر ورثاء کے خلاف کیس دائر کرنا بھی شرعاً غلط ہے ۔
سائل کے والدکےترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سائل کے والد مرحوم کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد ،باقی متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کے کل 27648 حصے کئے جائیں گے ، جس میں سےمرحوم کے ہر زندہ بیٹے کو 7655 حصے ، مرحوم بیٹے علاؤالدین کی بیوہ کو 1113 حصے اور ہر بیٹی کو1785 حصےملیں گے ۔
میت : (والد) ، مسئلہ : 8 / 32 / 3072 / 27648
بیوہ | بیٹا (زید) | بیٹا | بیٹا | بیٹا |
1 | 7 | |||
4 | 7 | 7 | 7 | 7 |
384 | فوت شد | 672 | 672 | 672 |
3456 | - | 6048 | 6048 | 6048 |
فوت شد | - | - | - | - |
میت : (زید) ، مسئلہ : 24 / 96 ، مافی الید : 7
والدہ | بیوہ | بیٹا (بکر) | بیٹی | بیٹی |
4 | 3 | 17 | ||
16 | 12 | 34 | 17 | 17 |
112 | 84 | 238 | 119 | 119 |
1008 | 756 | فوت شد | 1071 | 1071 |
فوت شد | - | - | - | - |
میت : (بکر) ، 6 / 18 / 9 ، مافی الید : 238 / 119
والدہ | بہن | بہن | چچا | چچا | چچا |
1 | 4 | 4 | 1 | ||
3 | 6 | 6 | 1 | 1 | 1 |
357 | 714 | 714 | 119 | 119 | 119 |
میت : (والدہ) ، مسئلہ : 3 / 1 ، مافی الید : 4464 / 1488
بیٹا | بیٹا | بیٹا |
1 | 1 | 1 |
1488 | 1488 | 1488 |
یعنی سو روپے میں سے مرحوم کے ہر زندہ بیٹے کو 27.6873روپے ، مرحوم کے بیٹے مرحوم زید کی بیوہ کو 4.0256روپے اور ہر بیٹی کو6.456 روپے ملیں گے ۔
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم دية الخطأ على أهل القرى ...قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن العقل ميراث بين ورثة القتيل على قرابتهم، فما فضل فللعصبة."
( کتاب الدیات، باب دیة الأعضاء : 4 ، 189 ، ط : المکتبة العصریة)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"ثمّ دية المقتول تكون ميراثًا عنه لجميع ورثته كسائر أمواله عندنا."
(كتاب الفرائض، باب ميراث القاتل: 30 / 49، ط: دار المعرفة)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100481
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن