بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کا یہ کہنا قیامت میں نیکی کم ہوئی تو میں دے دوں گا


سوال

 میرے والد صاحب  نےکہا کہ  قیامت کے دن میری نیکیاں کم ہو گئیں ،تو کیا آپ مجھے نیکیاں دوگے ،میں نے جواب میں نے انہیں کہااس دن کوئی کسی کا نہیں ہوگا ،کوئی کسی کو ایک نیکی دینے کو تیار نہیں ہوگا ، جس پر والد صاحب نے کہا آپ کا جواب ٹھیک نہیں ہے، اگر میں تمہاری   جگہ ہوتا تومیں نیکی دے دیتا ،حالانکہ ان کے معاملات اور رویہ  اپنے بچوں  سے ٹھیک نہیں ہے، میں جاننا چاہتا ہوں ان کے لیے اس بارے میں  کیا حکم ہے ؟

جواب

قرآن کریم کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن آدمی اپنے بھائی ، اپنے ماں  باپ اور اپنے بیوی و  بچوں سے بھاگتا پھرے گا، کیونکہ ہرایک کو اپنی فکر لاحق ہوگی  اور معلوم ہوگا آج ان ميں سے کوئی كام نہیں  آئے گا ،لہذا صور ت ِمسئولہ میں سائل کے والد صاحب کا یہ کہنا " میں اگر تمھاری جگہ ہوتا تو اپنی نیکی دے دیتا"، درست نہیں،باقی اگر سائل کو اپنے   والد صاحب کے معاملات اور رویہ کی شکایت ہے  ،تو  یہ بات ملحوظ رہے کہ والدین کو شریعت نےبڑا مقام دیا ہے،ان کو  "اف "کہنے سے بھی منع فرمایا ہے،اور ان کےساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے،نیز حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق والدین کے فرماں بردار کے لیے جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور نافرمان کے لیے جہنم کے دروازے کھل جاتے،البتہ اگر  سائل  کسی بڑے کے ذریعے حکمت  کے ساتھ  ان تک بات پہنچادے جس سے رویہ میں فرق آجائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ اس کے باوجود بھی کوئی تبدیلی نہ ہو تو سائل صبر سے کام لے اور ان کے ساتھ حسن سلوک ہی  کا رویہ رکھے،ان کے لیے دعا کرتے رہیں۔

قرآن مجید میں ہے:

 يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ (34) وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ (35) وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ (36) لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (37عبس)

ترجمه:جس روز ایسا آدمی (جس کا اوپر بیان ہوا) اپنے بھائی سے۔اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے۔اور اپنی بیوی سے اور اپنی اولاد سے بھاگے (یعنی کوئی کسی کی ہمدردی نہ کرے گا)۔ان میں ہر شخص کو (اپنا ہی) ایسا مشغلہ ہوگا جو اس کو اور طرف متوجہ نہ ہونے دے گا۔(از بيان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْناً عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنْ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ (14) وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفاً . (15لقمان)

"ترجمہ:اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے  (ف ٧)اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تو میرے اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر(ف ٨)  میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔اور اگر تجھ پر دونوں اس بات کا زور ڈالیں تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھیرا جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو  تو تو ان کا کچھ کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی سے بسر کرنا۔(بیان القرآن)"

روح المعانی میں ہے:

"وفي يوم من قوله تعالى يوم يفر المرء من أخيه وأمه وأبيه وصاحبته أي زوجته وبنيه على نحو ما تقدم في النازعات فتذكره فما في العهد من قدم أي يوم يعرض عنهم ولا يصاحبهم ولا يسأل عن حالهم كما في الدنيا لاشتغاله بحال نفسه كما يؤذن به قوله تعالىلكل امرئ منهم يومئذ شأن يغنيه فإنه استئناف وارد لبيان سبب الفرار...وقيليفر منهم لعلمه أنهم لا يغنون عنه شيئا."

 (ج:15، ص:251، ط:دار الكتب العلمية) 

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلما.

(کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج:٣، ص:١٣٨٢، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے، ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں