میری عمر تقریباً 47 سال ہے ،اللہ کے کرم سے اب نماز پڑھنا شروع کی ہے، لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ جو نماز یں نہیں پڑھ سکا ان کو کیسے قضا کروں ؟زندگی کا بھر وسا نہیں . اور کس عمر سے گنتی کروں؟اگر سات سال سے کروں تو 40x365x5=73000 نماز بنتی ہیں ۔
1- نماز کی فرضیت شرعاً بلوغت سے ہے، سات سال کی عمر سے نہیں ، اس لیے نمازوں کی قضا کا حساب بلوغت سے لگایا جائے گا ، اس سے پہلے کی قضا شرعاً لازم نہیں، اور بلوغت کا تعلق علاماتِ بلوغت ظا ہر ہونے سے ہے؛ اگر پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی علامات ( مثلاً احتلام وغیرہ) میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے نماز فرض ہو جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں چاند کے حساب سے پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز، روزہ وغیرہ فرض ہوگا۔ اگر آپ کو بلوغت کی عمر یاد ہے تو ٹھیک، ورنہ پندرہ سال کی عمر سے نمازوں کا حساب کرلیجیے۔
2- قضا صرف فرض نماز اور وتر کی ہوتی ہے، سنتوں کی قضا نہیں ہوگی۔
3- قضا نمازوں کو ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک آپ سے جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو (جیساکہ آپ کا مسئلہ ہے) تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیںاحتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں،جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔
قضا نماز کی نیت میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کیوجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا کی ہیں ان میں سے پہلی فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔
ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)، جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ ہوجائے گی ۔
اگر کسی شخص پر قضا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو تو اسے جلد از جلد قضا نمازیں ادا کر لینا چاہیے، لیکن اس کی وجہ سے سنتِ مؤکدہ ترک نہ کی جائیں، فجر سے پہلے کی دو سنتیں، ظہر سے پہلے کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں، ان سے پہلے قضا نماز پڑھ لیں، اس کے بعد سنتیں ادا کریں، البتہ عصر اور عشاء سے پہلے چوں کہ سنتِ غیر مؤکدہ ہیں، اس لیے اگر اتنا وقت نہ ہو کہ سنتیں پڑھنے کے ساتھ قضا بھی ادا کرسکیں تو ان دو اوقات میں سنتِ غیر مؤکدہ کی بجائے قضا نماز پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد کی دو، دو سنتیں اور عشاء کی تین وتر پڑھنا بھی لازمی ہے، ان کو ادا کرنے کے بعد اگر دیگر نوافل کی جگہ قضا نمازیں پڑھنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108201481
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن