بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قضا نمازوں کی ادائیگی کی وجہ سے سنتوں کا اہتمام نہ کرنا


سوال

 جِس کے ذمّے 5/6 سال کی نماز باقی ہو تو وہ ہر فرض نمازِ کے وقت اُس وقت کے نماز کی سنت کو چھوڑ کر قضاء نمازِ پڑھ سکتا ہے تاکہ اُسکے ذمّے سے جلد از جلد قضا نماز پوری ہو جاۓ،مثلا ظہر کے وقت میں ظہر سے پہلے کی 4 رکعات سنت نا پڑھے بلکہ پچھلی ظہر کے نماز کی قضاء پڑھ لے پھر ظہر  کےبعد بھی سنت نا پڑھ کر قضاء نماز ہی پڑھ لے اس طرح پڑھنے سے قضاء نماز ذمّے سے ختم ہو جائے گی ،تاکہ جتنی بھی قضاء نماز یں ہیں  وہ جلد از جلد پوری ہو جاۓ۔

2۔ قضاء نماز ادا کرتا رہے لیکِن زندگی میں پوری نہ ہو پائے اور موت آجائے تو کیا ہوگا یہ بھی بتا دیجیۓ؟

جواب

چھوٹی ہوئی نمازوں کی وجہ سے فرض نمازوں سے پہلے یا ان کی بعد کی سنن موٴکدہ مستقل طور پر چھوڑنا درست نہیں اگرچہ ان کی جگہ قضا نمازیں پڑھی جائیں، اس صورت میں آدمی کو مستقل طور پر سنن موٴکدہ چھوڑنے کا گناہ ہوگا؛ لہٰذا  قضا نمازوں کی وجہ سے سنن موٴکدہ کو ترک کرنا درست نہیں، بلکہ وقتی سنتیں بھی ادا کریں اور قضا نمازیں بھی ساتھ ساتھ ادا کرتے جائیں؛ البتہ جو نفل نمازیں ہیں، اگر وہ نہ پڑھیں؛ بلکہ ان کی جگہ قضا نمازیں پڑھیں تو اس میں کچھ حرج نہیں۔

باقی جب تک زندگی کی مہلت ہے قضا نمازوں کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے اور ادا کرتے رہنا چاہیے،البتہ اگرمرتے دم تک تمام قضا نمازوں کی ادائیگی نہ ہوسکی  تو اب اس شخص کو چاہیے کہ  مرنے سے پہلے وصیت کرجائے ، مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اگر اس نے وصیت نہ کی ہو اور تمام عاقل بالغ ورثاء اپنی خوشی سے مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کردیں تو یہ بھی جائز ہے،  اور دونوں صورتوں میں روزے پرقیاس کرکے فقہاء کرام یہ فرماتے ہیں اللہ کی ذات سے امید ہےکہ یہ نمازوں کا فدیہ ان شاء اللہ قبول فرمالیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  میں ہے:

"مطلب في السنن والنوافل

(قوله وسن مؤكدا) أي استنانا مؤكدا؛ بمعنى أنه طلب طلبا مؤكدا زيادة على بقية النوافل، ولهذا كانت السنة المؤكدة قريبة من الواجب في لحوق الإثم كما في البحر، ويستوجب تاركها التضليل واللوم كما في التحرير: أي على سبيل الإصرار بلا عذر كما في شرحه وقدمنا بقية الكلام على ذلك في سنن الوضوء."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج2،ص12،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة.

(قوله: وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها، وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله عليه الصلاة والسلام: «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه». وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.

(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك؛ لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك، إمداد.

ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعاً؛ لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات: إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة؛ لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطاً؛ لاحتمال كون النص فيه معلولاً بالعجز، فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولاً تكون الفدية براً مبتدأً يصلح ماحياً للسيئات، فكان فيها شبهة، كما إذا لم يوص بفدية الصوم، فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."

(کتاب الصلاۃ،باب قضاء الفوائت،ج2،ص72،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں