بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے ایام میں رہ جانے والے روزوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

عورت کے ایام کے جو روزے رہ جاتے ہیں وہ بعد میں کچھ رکھے کچھ نہیں رکھے اب صحیح تعداد نہیں معلوم ،تو وہ روزے کیسے رکھے جائیں یا اگر ان کی جگہ فطرانہ دیا جائے تو ایک مہینے کے حساب سے کتنا دیا جائے گا؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر کسی عورت کے ماہواری کی وجہ سے روزے رہ گئے ہوں اور  اس کی صحیح  تعداد معلوم نہ ہو تو  غور وفکر کرکے ایک تعداد متعین کرکے روزے  رکھے جائیں،اگر یقین سے کوئی عدد متعین نہ ہوسکے تو   ظن غالب پر عمل کرے یعنی جس عدد  کے متعلق غالب گمان ہواتنے ہی  روزں کی قضا  کی جائے۔

نیز  صحت یابی کی حالت میں  فدیہ دینا جائز نہیں ہے، بلکہ روزوں کی قضا   ہی ضروری ہے۔

البتہ اگر کوئی بیماری ہو تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ:’’ اگر ماہر دین دار ڈاکٹر کی رائے یہ ہے کہ اب ان کی صحت یابی کی امید نہیں ہے اور وہ سردی کے ایام میں بھی قضا نہیں کرسکتے تو ایسی صورت میں روزوں کے بدلے فدیہ دینا درست ہے، ایک روزے کےفدیہ کی مقدار  پونے دو کلو گندم  یا اس کی قیمت ہے‘‘۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"من لا يدري كمية الفوائت يعمل بأكبر رأيه فإن لم يكن له رأي يقض حتى يتيقن أنه لم يبق عليه شيء".

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، ص: ۴۴۷، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط. ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض والاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو غلبة ظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير. والصحيح الذي يخشى أن يمرض بالصوم فهو كالمريض هكذا في التبيين".

(کتاب الصوم ، الباب الخامس في الاعذار اللتی تبیح الإفطار ،ج:۱،ص:۲۰۷،ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں