بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قیمت طے کیے بغیر ادھار سامان فروخت کرنا


سوال

میں ایک دکاندار ہوں ، میرے پاس مختلف قسم کے گاہک آتے ہیں، میری دوکان میں بعض گاہکوں کا کھاتا ہوتا ہے، جس کی ادائیگی ہر ماہ یا طے شدہ مہینے میں کرتے ہیں۔ایسے گاہک  جب اپنی ضرورت کی کوئی چیز  خریدنے کے لئے آتے ہیں،  تو وہ اس چیز کو مجھ سے  خرید کر لے جاتے ہیں،  اور ساتھ میں یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کو کھاتے میں لکھ دو، اور شرم کے مارے نہ کسٹمر ریٹ کے بارے میں پوچھتا ہے اور نہ دکاندار اس کو بتاتا ہے۔اشیاء کی قیمت گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے ،پوچھنا یہ ہے کہ آیا ایسا سودا  جس  میں  نہ گاہک نے قیمت پوچھی ہو، اور نہ ہی دکاندار  نے اسے بتائی ہو،  شریعت کے رو سے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

کھاتہ   دار کا دوکاندار سے قیمت معلوم کیے بغیر  حسب ضرورت  اشیاء کا خریدنا  اور مقررہ تاریخ پر کل خریداری کا حساب کرنا،شریعت کی اصطلاح میں "بیع الاستجرار"  کہلاتا ہے ،  جو کہ استحساناً جائز ہے، بشرطیکہ   خریدی گئی چیز کی قیمت مارکیٹ میں پہلے سے معروف ہو، پس اگر کسی چیز کی قیمت  اتار چڑھاؤ  کی  وجہ سے معلوم نہ ہو، قیمت میں بہت زیادہ فرق بھی ہو، تو اس صورت میں خریداری سے پہلے قیمت معلوم  کر لینا یا دوکاندار  کی جانب سے قیمت بیان کر دینا ضروری ہوگا ، کیوں کہ ثمن  (قیمت ) کا مجہول  ہونا دوکاندار  اور کھاتہ دار  کے  درمیان نزاع  و جھگڑے کا باعث  ہوتاہے،جس کی وجہ سے بيع فاسد ہوجاتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں جن اشیاء  کی قیمت میں بہت زیادہ فرق واقع ہو رہا ہو، توکھاتہ داروں کو   ایسی اشیاء کی قیمت سے متعلق آگاہ ضرور کردیا کرے، نیز جس روز سائل فروخت  کرے، کھاتے میں اسی روز کی قیمت درج کرنا ضروری  ہوگا۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال [۱۷۸۷۰ ]: ہماری طرف جن کی گائے بھینس دودھ دیتی ہے، وہ دودھ باندھ دیتے ہیں ، اور ماہ بماہ قیمت کا حساب کر لیتے ہیں۔ بعض غریب و ضرورت مند کچھ رقم پیشگی لے لیتے ہیں اور دودھ میں حساب وضع ہوتا رہتا ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟"

الجواب حامداً ومصلياً :

"دودھ دے کر ماہ بماہ قیمت لیتے رہنا تو درست ہے مگر پیشگی روپیہ دے کر دودھ لینے دینے میں کراہت ہے۔" فقط واللہ تعالیٰ اعلم

(باب ما يتعلق بالحصص،بیع استجر ارکا بیان، بعنوان: پیشگی قیمت دے کر تھوڑا تھوڑا مبیع وصول کرنا، ١٦ / ١٩٦، ط: فاروقیہ)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(ومنها) أن يكون البدل منطوقا به في أحد نوعي المبادلة، وهي المبادلة القولية فإن كان مسكوتا عنه فالبيع فاسد بأن قال: بعت منك هذا العبد، وسكت عن ذكر ‌الثمن فقال المشتري: اشتريت لما ذكرنا أن البيع في اللغة: مبادلة شيء مرغوب بشيء مرغوب، وفي الشرع: مبادلة المال بالمال، فإذا لم يكن البدل منطوقا به، ولا بيع بدون البدل إذ هو مبادلة كان بدله قيمته فكان هذا بيع العبد بقيمته، وأنه فاسد، وهكذا السبيل في البياعات الفاسدة أنها تكون بيعا بقيمة المبيع على ما نذكر في موضعه، هذا إذا ‌سكت عن ذكر ‌الثمن فأما إذا ما نفاه صريحا بأن قال: بعتك هذا العبد بغير ثمن، أو بلا ثمن فقال المشتري: اشتريت اختلف المشايخ فيه قال بعضهم: هذا والسكوت عن ‌الثمن سواء، والبيع فاسد، وقال بعضهم: البيع باطل."

(کتاب البیوع،فصل فی شرائط الصحة في البيوع، ٥ / ١٨٣،ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ ہندیہ میں  ہے:

"وإذا اشترى الرجل شيئا من غيره ولم يذكر ثمنا كان البيع فاسدا ولو أن البائع قال بعت منك هذا العبد بلا ثمن وقال المشتري قبلته كان المبيع باطلا كذا في الظهيرية."

(کتاب البیوع،الباب التاسع،الفصل الثامن في جهالة المبيع أو الثمن، ٣ / ١٢٢،ط: دار الفكر،بيروت)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"[فروع] ما يستجره الإنسان من البياع إذا حاسبه على أثمانها بعد استهلاكها جاز استحسانا."

[فروع في البيع]

"(قوله: ما يستجره الإنسان إلخ) ذكر في البحر أن من شرائط المعقود عليه أن يكون موجودا، فلم ينعقد بيع المعدوم ثم قال: ومما تسامحوا فيه، وأخرجوه عن هذه القاعدة ما في القنية الأشياء التي تؤخذ من البياع على وجه الخرج كما هو العادة من غير بيع كالعدس والملح والزيت ونحوها ثم اشتراها بعدما انعدمت صح. اهـ.

فيجوز بيع المعدوم هنا. اهـ.

وقال: بعض الفضلاء: ليس هذا بيع معدوم إنما هو من باب ضمان المتلفات بإذن مالكها عرفا تسهيلا للأمر ودفعا للحرج كما هو العادة، وفيه أن الضمان بالإذن مما لا يعرف في كلام الفقهاء حموي، وفيه أيضا أن ضمان المثليات بالمثل لا بالقيمة والقيميات بالقيمة لا بالثمن ط. قلت: كل هذا قياس، وقد علمت أن المسألة استحسان ويمكن تخريجها على فرض الأعيان، ويكون ضمانها بالثمن استحسانا وكذا حل الانتفاع في الأشياء القيمية؛ لأن قرضها فاسد لا يحل الانتفاع به، وإن ملكت بالقبض وخرجها في النهر على كون المأخوذ من العدس ونحوه بيعا بالتعاطي، وأنه لا يحتاج في مثله إلى بيان الثمن؛ لأنه معلوم. اهـ.

واعترضه الحموي بأن أثمان هذه تختلف فيفضي إلى المنازعة. اهـ"

(كتاب البيوع، ٤ / ٥١٦، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603101840

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں