بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرآن مجید کو مقامات (علم نغمات یا علم موسیقی) میں پڑھنے کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ آج کل قراء جو (فن مقامات) سیکھتے ہیں تحسینِ صوت کے لیے، جب کہ ان لہروں میں قواعدِ تجوید وآدابِ تلاوت کی رعایت نہیں کرتے، (مثلاً مدّات میں تہمیز،تطنین، ترعید، وغیرہ عیوبِ تلاوت جو نورانی قاعدے مین لکھے ہوئے ہیں)، مزید یہ کہ حدیث میں حسنِ صوت خوف باری تعالی سے تعبیر ہے، اور لحنِ عشق ومفتون القلوب سے بچنے کا حکم ہے، جب کہ آج کل اکثر سامعین کو کان کی لذت اور پرگندہ دل کی لذت حاصل ہوتی ہے، اور ایک مشغلہ ہے ، البتہ بعض خشیت بھی حاصل کرتے ہیں "وهم قليل

نیز حسنِ صوت مستحب بے شک ہے مگر اپنے درجہ میں ہو،  جیسے حدیث میں ہے: (وإياكم ولحون أهل العشق ... ترجيع الغناء والنوح ... مفتونه قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم." ... أحسن صوتاً للقرآن؟ وأحسن قراءة؟ قال:  من إذا سمعته يقرأ أرأيت أنه يخشى الله)، جیسے متفرق قطعۂ احادیث ہیں، لہذا آن جناب اس سلسلے میں رہ نمائی کیجئے۔

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کو تجوید کی رعایت کے ساتھ پڑھنا اور لحنِ جلی سے بچنا فرض ہے، اور ساتھ ساتھ حسنِ صوت کی بھی رعایت کرنا شرعاً  مستحب اور مستحسن ہے، لیکن حسنِ صوت کے درپے ہوکر تجوید کے اصول کی مخالفت کرنا ناجائز وحرام ہے،  کیوں کہ قرآنِ کریم کی تلاوت ایسے انداز میں کرنا مطلوب ہے جو دلوں پر اثر انداز ہو،  اور دل پر خشیت کی کیفیت طاری ہو، اور اعمال کی طرف رغبت پیدا کرنے کا باعث ہو، پس  حسنِ صوت  کے ساتھ پڑھنے کی  ترغیب بھی اسی لیے دی گئی ہےتاکہ اصل مقصد (دل پر اثر کرنا) تک رسائی ہوجائے، کیوں کہ اچھی آواز میں تلاوت کا جلد اثر ہوتا ہے، نیز قرآنِ مجید اللہ رب العزت کی جانب سے نازل کردہ ایسا ہدایت نامہ ہے، جس میں متعدد مضامین (اممِ سابقہ کے احوال، امثال، واحکام وغیرہ) مذکورہیں، قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنے کی صورت میں مذکورہ مضامین تلاوت کرتے ہوئے فطری طور پر پڑھنے والے پر مختلف کیفیات (حزن وملال، فرحت وسرور، خوف وخشیت، دنیا سے بے رغبتی وآخرت کی طرف میلان، خوداحتسابی، وغیرہ) طاری ہوتی ہیں، اور ان کیفیات کا اثر پڑھنے والے لہجے وادائیگی کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے، پس یہی حقیقت مقاماتِ متعارفہ کی ہے، مذکورہ فن مقامات  تجویدی اصول کے خلاف نہیں، بلکہ ان کا تعلق فطری کیفیات سے ہے، لہذا مذکورہ فن مقامات کو تجویدی اصول وقواعد کے خلاف سمجھنا درست نہ ہوگا، تاہم مذکورہ فن مقامات مقصود اصلی نہیں، لہذا انہیں لازم سمجھنا، اور قرآنِ مجید سمجھ کر پڑھنے کی جستجوکرنےکے بجائے ان  مقامات کے سیکھنے پر توجہ دینا، اور لوگوں کی  واہ واہ کی طلب رکھنا درست نہیں، احادیث میں ایسے قراء کے بارے میں سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں جو عمل سے عاری ہوں، لہذا ان مقامات کو مقصود نہیں بنانا چاہیے، جیسا کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے فن مقامات کو تلاوتِ قرآنِ حکیم کا لازمی جزء سمجھا جانے لگا ہے، اور فن مقامات  میں ماہر قراء کی تلاوت پر جھومنا عام معمول بنتا جارہا ہے، یہ سب امور بے اعتدالی کا نتیجہ ہیں، جن سے بچنا ضروری ہے۔

ارشادِ باری تعالی ہے:

﴿‌اللَّهُ ‌نَزَّلَ ‌أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ ﴾ [الزمر: 23]

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی ہے جس سے ان لوگوں کے جو کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (اور منقاد) ہو کر اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں یہ (قرآن) اللہ کی ہدایت ہے جس کو وہ چاہتا ہے اس کے ذریعہ سے ہدایت کرتا ہے اور خدا جس کو گمراہ کرتا ہے اس کا کوئی ہادی نہیں۔

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ معارف القرآن میں آیتِ بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”یعنی تلاوت قرآن کا اثر کبھی عذاب کی وعید سن کر یہ ہوتا ہے کہ بدن کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور کبھی رحمت و مغفرت کی آیات سن کہ یہ حال ہوتا ہے کہ بدن اور قلب سب اللہ کی یاد میں نرم ہو جاتے ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صحابہ کرام کا عام حال یہی تھا کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور بدن پر بال کھڑے ہو جاتے۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس بندے کے بدن پر اللہ کے خوف سے بال کھڑے ہو جاویں تو اللہ تعالیٰ اس کے بدن کو آگ پر حرام کر دیتے ہیں۔ “

(معارف القرآن، سورۂ زمر، 7/ 551-552، ط: مکتبہ معارف القرآن، کراچی)

مشکات المصابیح میں ہے:

"عن حذيفة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اقرؤوا القرآن ‌بلحون ‌العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونه قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم."

ترجمہ: ”قرآن مجید کو عربوں کے لہجے  اور آواز میں پڑھا کرو (یعنی ترنم پیدا کرنے کے لیے  بہت زیادہ تکلف نہ کیا کرو) اور  اہلِ  کتاب و فساق  کی آوازوں  اور لہجوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ،  میرے بعد  عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو  قرآن کو گانوں، پادریوں،  اور  رونے والی آوازوں کی طرح پڑھیں گے، قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ،  ان کے دل فتنے والے ہوں گے،  اور ان لوگوں کے دل بھی فتنہ زدہ ہوں گے جنہیں یہ (قاری)  اچھے لگتے ہوں گے۔

(كتاب فضائل القرآن، ‌‌باب آداب التلاوة، 1/ 675، ط: المكتب الإسلامي)

مرقات المفاتیح میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (اقرءوا القرآن بلحون العرب وأصواتها) عطف تفسيري، أي: بلا تكلف النغمات من المدات والسكنات في الحركات والسكنات بحكم الطبيعة الساذجة عن التكلفات (وإياكم ولحون أهل العشق) : أي: أصحاب الفسق (ولحون أهل الكتابين) ، أي: أرباب الكفر من اليهود والنصارى فإن من تشبه بقوم فهو منهم، قال الطيبي: اللحون جمع لحن وهو التطريب وترجيع الصوت، قال صاحب جامع الأصول: ويشبه أن يكون ما يفعله القراء في زماننا بين يدي الوعاظ من اللحون العجمية في القرآن ما نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب فضائل القرآن، 4/ 1505، ط: دار الفكر)

لمعات التنقیح میں ہے

"والمراد بلحون العرب ما كان فيه تحسين الصوت وتطريبه من غير تكلف في رعاية القوانين الموسيقية بإعانة الطبيعة كما يشاهد ذلك في قراءتهم، و (لحون أهل العشق) ما يفعلون في مغازلة النساء ومحادثتهن في الأشعار وما يجري مجراها من رعاية قواعد الموسيقي، وكان اليهود والنصارى يقرؤون كتبهم نحوا من ذلك ويتكلفون فيها، وقد يصحف لفظ العشق بالفسق وليس بصحيح، و (الترجيع) في القراءة ترديد الحروف وتحريك الصوت."

(كتاب فضائل القرآن، الفصل الثالث، 4/ 599، ط: دار النوادر)

الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال في جواب سؤال سأله ابن الجزري: القراءات السبع التي اقتصر عليها الشاطبي والثلاث التي هي قراءة أبي جعفر ويعقوب وخلف متواترة معلومة من الدين بالضرورة وكل حرف انفرد به واحد من العشرة معلوم من الدين بالضرورة أنه منزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكابر في شيء من ذلك إلا جاهل."

(‌‌النوع الثاني والثالث: معرفة المتواتر والمشهور، 1/ 277، ط: الهيئة المصرية العامة)

علامہ جزریؒ "طيبة النشر" میں فرماتے ہیں:

"‌مَعْ ‌حُسْنِ ‌صَوْتٍ ‌بِلُحُونِ ‌الْعَرَبِ … مُرَتَّلاً مُجَوَّدًا بِالْعَرَبِي."

(المقدمة، ص: 36، ط: طيبة النشر)

فتاوی شامی میں ہے:

"تغنى بالقرآن ولم يخرج بألحانه عن قدر هو صحيح في العربية مستحسن."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فرع: يكره إعطاء سائل المسجد، 6/ 423، ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے:     

"وأما ‌القراءة ‌بالألحان ‌فأباحها ‌قوم وحظرها قوم. والمختار إن كانت الألحان لا تخرج الحروف عن نظمها وقدر ذواتها فمباح، وإلا فغير مباح."

(كتاب الشهادات، باب من تقبل شهادته، 7/ 410، ط: دار الفكر)

فتح الباري لابن حجر میں ہے:

"والحاصل أنه يمكن الجمع بين أكثر التأويلات المذكورة وهو أنه يحسن به صوته جاهرا به مترنماً على طريق التحزن مستغنيا به عن غيره من الأخبار، طالبا به غنى النفس راجيا به غنى اليد، وقد نظمت ذلك في بيتين: تغن بالقرآن حسن به الصوت حزينا جاهرا، رنم واستغن عن كتب الألى طالبا غنى يد والنفس، ثم الزم وسيأتي ما يتعلق بحسن الصوت بالقرآن في ترجمة مفردة ولا شك أن النفوس تميل إلى سماع القراءة بالترنم أكثر من ميلها لمن لا يترنم لأن للتطريب تأثيرا في رقة القلب وإجراء الدمع وكان بين السلف اختلاف في جواز القرآن بالألحان أما تحسين الصوت وتقديم حسن الصوت على غيره فلا نزاع في ذلك فحكى عبد الوهاب المالكي عن مالك تحريم القراءة بالألحان وحكاه أبو الطيب الطبري والماوردي وبن حمدان الحنبلي عن جماعة من أهل العلم وحكى بن بطال وعياض والقرطبي من المالكية والماوردي والبندنيجي والغزالي من الشافعية وصاحب الذخيرة من الحنفية الكراهة واختاره أبو يعلى وبن عقيل من الحنابلة وحكى بن بطال عن جماعة من الصحابة والتابعين الجواز وهو المنصوص للشافعي ونقله الطحاوي عن الحنفية وقال الفوراني من الشافعية في الإباحة يجوز بل يستحب ومحل هذا الاختلاف إذا لم يختل شيء من الحروف عن مخرجه فلو تغير قال النووي في التبيان أجمعوا على تحريمه ولفظه أجمع العلماء على استحباب تحسين الصوت بالقرآن ما لم يخرج عن حد القراءة بالتمطيط فإن خرج حتى زاد حرفا أو أخفاه حرم قال وأما القراءة بالألحان فقد نص الشافعي في موضع على كراهته وقال في موضع آخر لا بأس به فقال أصحابه ليس على اختلاف قولين بل على اختلاف حالين فإن لم يخرج بالألحان على المنهج القويم جاز وإلا حرم وحكى الماوردي عن الشافعي أن القراءة بالألحان إذا انتهت إلى إخراج بعض الألفاظ عن مخارجها حرم وكذا حكى بن حمدان الحنبلي في الرعاية وقال الغزالي والبندنيجي وصاحب الذخيرة من الحنفية إن لم يفرط في التمطيط الذي يشوش النظم استحب وإلا فلا وأغرب الرافعي فحكى عن أمالي السرخسي أنه لا يضر التمطيط مطلقا وحكاه بن حمدان رواية عن الحنابلة وهذا شذوذ لا يعرج عليه والذي يتحصل من الأدلة أن حسن الصوت بالقرآن مطلوب فإن لم يكن حسنا فليحسنه ما استطاع كما قال بن أبي مليكة أحد رواة الحديث وقد أخرج ذلك عنه أبو داود بإسناد صحيح ومن جملة تحسينه أن يراعي فيه قوانين النغم فإن الحسن الصوت يزداد حسنا بذلك وإن خرج عنها أثر ذلك في حسنه وغير الحسن ربما انجبر بمراعاتها ما لم يخرج عن شرط الأداء المعتبر عند أهل القراءات فإن خرج عنها لم يف تحسين الصوت بقبح الأداء ولعل هذا مستند من كره القراءة بالأنغام لأن الغالب على من راعى الأنغام أن لا يراعي الأداء فإن وجد من يراعيهما معا فلا شك في أنه أرجح من غيره لأنه يأتي بالمطلوب من تحسين الصوت ويجتنب الممنوع من حرمة الأداء والله أعلم."

(قوله باب من لم يتغن بالقرآن، 9/ 72، ط: دار المعرفة)

التبیان فی آدابِ حملۃ القرآن میں ہے:

"وتقدم في فضل الترتيل حديث عبد الله بن مغفل في ترجيع النبي صلى الله عليه وسلم: القراءة وكحديث سعد بن أبي وقاص وحديث أمامة رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم: قال ‌من ‌لم ‌يتغن ‌بالقرآن ‌فليس ‌منا رواه أبو داود باسنادين جيدين وفي إسناد سعد اختلاف لا يضر.
قال جمهور العلماء معنى لم يتغن لم يحسن صوته وحديث البراء رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم: قرأ في العشاء بالتين والزيتون فما سمعت أحدا أحسن صوتا منه رواه البخاري ومسلم قال العلماء رحمهم الله فيستحب تحسين الصوت بالقراءة ترتيبها ما لم يخرج عن حد القراءة بالتمطيط فإن أفرط حتى زاد حرفا أو أخفاه فهو حرام. وأما القراءة بالألحان فقد قال الشافعي رحمه الله في موضع أكرهها قال أصحابنا ليست على قولين بل فيه تفصيل إن أفرط في التمطيط فجاوز الحد فهو الذي كرهه وإن لم يجاوز فهو الذي لم يكرهه وقال أقضى القضاة الماوردي في كتابه الحاوي: القراءة بالألحان الموضوعة ان أخرجت لفظ القرآن عن صيغته بإدخال حركات فيه أو إخراج حركات منه أو قصر ممدود أو مد مقصور أو تمطيط يخفي به بعض اللفظ ويتلبس المعنى فهو حرام يفسق به القارئ."

(فصل في استحباب تحسين الصوت بالقراءة، ص: 110، ط: دار ابن حزم)

وفيه أيضا:

"أجمع العلماء رضي الله عنهم من السلف والخلف من الصحابة والتابعين ومن بعدهم من علماء الأمصار أئمة المسلمين على استحباب تحسين الصوت بالقرآن وأقوالهم وأفعالهم مشهورة نهاية الشهرة فنحن مستغنون عن نقل شئ من أفرادها ودلائل هذا من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم: مستفيضة عند الخاصة والعامة كحديث زينوا القرآن باصواتكم وحديث لقد أوتي هذا مزمارا وحديث ما أذن الله وحديث لله أشد أذنا."

(فصل في استحباب تحسين الصوت بالقراءة، ص: 109، ط: دار ابن حزم)

فتح الباري لابن رجب میں ہے:

"فأما تغني المؤمن فإنما ينبغي أن يكون بالقرآن، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ليس منا من ‌لم ‌يتغن ‌بالقرآن) والمراد: أنه يجعله عوضا عن الغناء فيطرب به ويلتذ، ويجد فيه راحة قلبه وغذاء روحه، كما يجد غيره ذلك في الغناء بالشعر. وقد روي هذا المعنى عن ابن مسعود - أيضاً. وأما الغناء المهيج للطباع، المثير للهوى، فلا يباح لرجل ولا لامرأة فعله ولا استماعه؛ فإنه داع إلى الفسق والفتنة في الدين والفجور فيحرم كما يحرم النظر بشهوة إلى الصور الجميلة."

(أبواب العيدين، سنة العيدين لأهل الإسلام، 8/ 435، ط: دار الحرمين)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں