میرے والد صاحب شہید ہو گئے تھے، اس وقت ہم سب بچے نابالغ تھے، ہماری والدہ حیات تھی، اور دادی بھی زندہ تھی، ہمارے دادا، والد کی زندگی ہی میں فوت ہو چکے تھے، اور ان کی جائیداد والد صاحب کی زندگی میں ہی تقسیم ہو چکی تھی، والد صاحب کی شہادت کے بعد دادی نے ہمارے چچا سے مطالبہ کیا کہ قاتلوں پر مقدمہ دائر کیا جائے، کیوں کہ ان کا بیٹا (یعنی ہمارے والد) شہید ہوا تھا، چچا نے مقدمہ دائر کر دیا، لیکن ہم نابالغ بچوں سے اجازت لی گئی، نہ ہی ہماری والدہ (جو بالغ و عاقل تھی) سے مشورہ یا اجازت حاصل کی گئی، بلکہ ہماری والدہ مقدمے سے انکاری تھی، اور صلح پر راضی تھی، چچا نے اس مقدمے پر اخراجات کیے، لیکن ہمیں نہ مقدمے کی اطلاع دی گئی، نہ کوئی مالی فائدہ (دیت، زمین وغیرہ) ملا، اب جب ہم بالغ ہو چکے ہیں ،اور اپنی وراثت کا حق مانگتے ہیں تو چچا کہتا ہے کہ میں نے مقدمہ سب کی طرف سے کیا تھا، اس لیے اب آپ لوگ مقدمے کے خرچ میں شریک ہو، پہلے خرچ دو پھر وراثت لو۔ سوالات:
1۔ کیا چچا کو صرف دادی کے کہنے پر مقدمہ دائر کرنے کا شرعی حق حاصل تھا، جب کہ والدہ صلح پر راضی تھی، اور ہم نابالغ تھے؟
2۔ جب ہم نابالغ تھے، مقدمے کی اجازت نہیں دی، اور ہمیں کوئی فائدہ بھی نہیں ملا، تو کیا ہم پر اس مقدمے کا خرچ شرعاً لازم ہے؟
3۔ چوں کہ ہم نابالغ تھے، اور والدہ نے مقدمے سے انکار کیا تھا، اور مقدمہ کرنے پر ہمارے ساتھ مشورہ نہیں کیا گیا، تو کیا چچا مقدمے کے خرچ کا ہم سے مطالبہ کر سکتے ہیں؟ کیا یہ خرچ شرعاً ہم پر لازم ہے؟
4۔ کیا ایسا خرچ، جو وارثوں کی مرضی اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہو، شرعاً وراثت سے منہا کیا جا سکتا ہے؟
5۔ایسے قتل میں شرعاً "ولی الدم" کون ہوتا ہے؟ نابالغ اولاد، ماں یا دادی؟
1۔ 5:واضح رہے کہ قصاص لینے یا معاف کرنے کا حق مقتول کے اولیاء کو ہوتا ہے، اور مقتول کے اولیاء وہی ہوتے ہیں، جو اس کے ورثاء ہوتے ہیں، اور اگر کوئی شخص اولیاء کی اجازت کے بغیر مقتول کا مقدمہ لڑے،تو اس پر جو خرچہ آئے گا،تو وہ اس مقدمہ لڑنے والے کی طرف سے تبرع شمار کیا جائے گا، لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے چچا نے اپنے شہید بھائی کی طرف سےجو مقدمہ لڑا، جب کہ اس کے ورثاء کی طرف سے اس کو اجازت نہیں تھی ، صرف ایک وارث مقتول کی ماں کی طرف سے اس کو اجازت دی گئی تھی، تو اب مقدمہ لڑتے ہو ئے سائل کے چچا کا جو خرچہ آیاہے تو اس خرچہ کا مطالبہ میت کے دوسرے ورثاء سے نہیں کرسکتا، اورنہ میت کے ورثاء پر یہ خرچہ لازم ہوگا ، ہاں صرف ایک وارث مقتول کی ماں نے اجازت دی تھی اس سے مطالبہ کرسکتاہے ، لہذا سائل کے چچا کا مذکورہ خرچے کا مطالبہ میت کے دوسرے ورثاء یعنی سائل وغیرہ سے کرنا شرعاً درست نہیں ہے ،اسی طرح سائل کا چچا اپنے دوسرے بھائیوں سے بھی اس خرچہ کے مطالبہ کا حق نہیں رکھتا ، اور سائل کے چچا کے لیے اس خرچہ کی وجہ سے سائل کے والد کے ترکہ کو روکنا یا مذکورہ خرچہ ا سے منہا کرنا شرعاًجائز نہیں ہے ،
ملحوظ رہے کہ مقتول کے خون کا ولی اس کے ورثاء ہوتے ہیں ،صورت مسئولہ میں سائل کے مرحوم والد کے ولی الدم اس کے بچے ،اس کی بیوی ، اور اس کی ماں یعنی اس کے تمام شرعی ورثاء ہیں ۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة ."
ترجمہ”انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے وارث کی میراث کاٹی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اس کی جنت کی میراث کاٹ دے گا۔ “
(کتاب الفرائض ،باب الوصایا،الفصل الثالث،ج:1، ص:462،ط:مكتبة البشری)
فتاوی شامی میں ہے :
"(قوله :القود يثبت للورثة) قال في الخانية يستحق القصاص من يستحق ميراثه على فرائض الله تعالى يدخل فيه الزوج والزوجة ."
( كتاب الجنايات ، باب الشهادة في القتل واعتبار حالته ،ج:6،ص:568، ط:سعيد)
العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره".
(كتاب المداينات،ج:2 ،ص:226،ط: دار المعرفة)
فقط وللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100759
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن