بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر فروخت کیے گئے پلاٹ کی رقم پر زکاۃ


سوال

میرے والد صاحب نے ایک پلاٹ بیچا 25 لاکھ روپے پر ،جس میں 5 لاکھ نقد اور 20 لاکھ قسط وار اداکرنے کا عقد ہوا ہے،اس بیع کو دو سال ہوچکےہیں ،دو سال میں  3 لاکھ 50 ہزار قسط وار رقم مشتری نے ادا کی ہے،اب سوال یہ ہے کہ آئندہ مشتری جو قسطیں ہمیں ادا کرے گا ،ابھی تک ادا نہیں کیں،کیا اس میں ہم پر زکاۃ  ہے یا نہیں؟اور جو دو سال قسطیں  ہم نے وصول کی ہیں  اس پر زکاۃ کا حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں  سائل کے والد پر اپنے مذکورہ پلاٹ کی کل رقم یعنی 25 لاکھ روپے کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے ،جس کی تفصیل یہ ہے کہ جو رقم سائل کے والد نے  وصول کر لی ہے  اس رقم  کی زکوۃ    تو اسی سال دیگر اموال ِ زکاۃ کی زکاۃ ادا کرتے وقت  ادا کرنا  لازم ہے،اگر اس وصول کردہ رقم کی گذشتہ سالوں کی  زکاۃ ادا نہیں کی تھی تو گذشتہ سالوں کی بھی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا ۔

باقی جورقم اب تک وصول نہیں ہوئی ہے اس کی زکاۃ ادا کرنے  میں اختیار ہے چاہے تو  ہر سال دیگر اموال ِ زکاۃ کی زکاۃ ادا کرتے وقت اس رقم کی بھی زکاۃ ادا کردے  اور چاہے تو    فی الحال اس رقم کی  زکوٰۃ ادا نہ کرے، بلکہ جیسے جیسے قسط وصول ہوتی جائے اس کا گزشتہ سالوں کا   حساب کرکے زکوٰۃ ادا کردے، مثلاً اگر دو سال کے بعد رقم وصول ہو تو حساب کرکے دو سال کی زکوٰۃ ادا کردے وغیرہ۔

بدائع الصنائع میں  ہے:

"وجملة الكلام في الديون أنها على ثلاث مراتب في قول أبي حنيفة: دين قوي، ودين ضعيف، ودين وسط كذا قال عامة مشايخنا أما القوي فهو الذي وجب بدلا عن مال التجارة كثمن عرض التجارة من ثياب التجارة، وعبيد التجارة، أو غلة مال التجارة ولا خلاف في وجوب الزكاة فيه إلا أنه لا يخاطب بأداء شيء من زكاة ما مضى ما لم يقبض أربعين درهما، فكلما قبض أربعين درهما أدى درهما واحدا".

(كتاب الزكاة، فصل وأما الشرائط التي ترجع إلى المال، 10/2، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100634

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں