عامر کودس لاکھ روپے کی ضرورت تھی ،اس کا کہنا تھا کے میں آپ کو ایک سال بعد دس لاکھ روپے کے عوض سولہ لاکھ روپے دوں گا، نقد رقم کے بدلے منافع سود ہے، اس لیے میں نے دس لاکھ روپے کا سونا خرید کر عامر کو 16 ماہ کی مدت پر سولہ لاکھ روپے میں دیا، عامر مجھے ماہانہ اقساط یعنی دس ہزارمہانہ قسط دےگا،16 ماہ میں رقم ختم ہوجائےگی، ہمارے درمیان سولہ لاکھ روپےطے ہوا ہے،عدمِ ادائیگی یا تاخیر کی صورت میں بھی رقم وہی رہے گی، کیا یہ صورت جائز ہے؟
واضح رہے کہ سونے چاندی کی روپیہ پیسے کے بدلے خرید وفروخت شرعاً "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، اور بیعِ صرف کا حکم یہ ہے کہ اس میں دونوں طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہے، اس لیےسونے چاندی کے معاملات میں لین دین، نقد اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا چاندی وصول کرنا ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا کے دائرے میں آنے کی بنا پر ناجائز و حرام ہے، لہذاسونا چاندی قسطوں پر خریدنا جائز نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیےدس لاکھ روپے کاسونا خرید کر عامر کو سولہ ماہ کے قسطوں پردس لاکھ ساٹھ ہزار روپے میں بیچناشرعاًجائز نہیں ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."
(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه،ج:3،ص:217،ط. رشيديۃ)
درر الحكام شرح مجلة الاحكام میں ہے:
"(المادة 121) (الصرف بيع النقد بالنقد) يعني أن بيع الصرف هو بيع الذهب المسكوك أو غير المسكوك بذهب أو فضة والفضة بذهب أو مثلها فضة.فلو أعطى شخص آخر جنيها مصريا أو ليرة عثمانية وأخذ منه مقابلها نقودا فضية أو نقودا ذهبية من (أجزاء الليرة) فذلك البيع هو بيع الصرف."
(البيوع،المادة120،ج:1،ص:113،ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403101659
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن