بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

قسطوں پر سونا چاندی کی بیع کرنا جائز نہیں ہے


سوال

عامر نے مجھ سے 1 لاکھ روپے نقد رقم مانگی اور کہاکہ 16 مہینے بعد میں 1 لاکھ 60ہزار روپے واپس کردوں گا ،نقد رقم کے بدلے منافع سود ہے ،اس لیے میں نے 1 لاکھ کا سونا نقد خرید کر عامر کو 16 ماہ کے عوض 1 لاکھ 60ہزار روپےمیں دیا، عامر نے سونا بیچ کر اپنی ضرورت کی رقم حاصل کی اور مجھے ماہانہ اقساط میں رقم دے رہا ہے، رقم کی تاخیر کی صورت میں اضافی رقم وصول نہیں کروں گا۔

جواب

واضح رہے کہ سونے چاندی کی روپیہ پیسے کے بدلے  خرید وفروخت شرعاً "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، اور بیعِ صرف کا حکم یہ ہے کہ اس میں دونوں طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہے، اس لیےسونے چاندی کے معاملات میں لین دین،  نقد  اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی وصول کرنا  ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا کے دائرے میں آنے کی بنا پر ناجائز و حرام ہے، لہذاسونا چاندی قسطوں پر خریدنا جائز نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے  ایک لاکھ روپے کا سونا خرید کر عامر کو سولہ ماہ کے قسطوں پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے میں بیچنا،  شرعاًجائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."

(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه،ج:3،ص:217،ط. رشيديۃ)

درر الحكام شرح مجلة الاحكام میں ہے:

"(المادة 121) (الصرف بيع النقد بالنقد) يعني أن ‌بيع ‌الصرف هو بيع الذهب المسكوك أو غير المسكوك بذهب أو فضة والفضة بذهب أو مثلها فضة.فلو أعطى شخص آخر جنيها مصريا أو ليرة عثمانية وأخذ منه مقابلها نقودا فضية أو نقودا ذهبية من (أجزاء الليرة) فذلك البيع هو ‌بيع ‌الصرف."

(البيوع،المادة120،ج:1،ص:113،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101691

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں