بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قربانی کے باب میں حوائجِ اصلیہ میں کون سی چیزیں داخل ہیں اورکون سی نہیں؟


سوال

1 ایک عورت کے پاس ایک گائے ، یا دو گائیں ہیں، جن کا دودھ اور  دہی وغیرہ پورے گھر والے استعمال کرتے ہیں،  اس ایک گائے یادو کی قیمت  قربانی کے نصاب سے بڑھ جاتی ہے،  اب اس صورت میں عورت پر  قربانی واجب ہے یا نہیں ؟ 

2- قربانی کے باب میں  حوائجِ اصلیہ میں اورضرورت میں مشغول کتنے جانور ہو سکتے ہیں ؟ کیوں کہ ضرورت کی مختلف صورتیں در پیش ہوتی ہیں : مثلا گھر والوں کے لیے صرف چائے کا دودھ ایک طرح ضرورت ہے ، جو ایک جانور سے پوری ہو سکتی ہے، دوسری صورت یہ کہ گھر والے چائے کے دودھ کے علاوہ بطور سالن بھی دودھ استعمال کرتے ہیں، دودھ سے لسی بھی بناتے ہیں، جس کے لیے عام طور پر دو تین جانوروں کی ضرورت ہو گی، تیسری صورت یہ ہے کہ کچھ لوگ صرف دودھ لسی پر اکتفا نہیں کرتے ہیں، بلکہ جانوروں کو اس لیے رکھتے ہیں، تاکہ دودھ سے گھی حاصل کرتے رہیں، اس کے لیے نسبت زیادہ جانوروں کی ضرورت ہوگی، چوتھی صورت یہ ہوتی ہے کہ لوگ جانور پالتے ہیں، تا کہ جانور بڑھتے رہیں، توالد تناسل جاری ہو ، اور بوقت ضرورت خود گوشت کھانے کے لیے اپنے پاس جانور موجود ہو، نیز ملحوظ رہے کہ مذکورہ صورتوں میں تمام جانور پورا سال دودھ نہیں دیتے ہیں، بلکہ سال کے متعین مہینوں میں کچھ جانور دو ر دیتے ہیں اور بقیہ سال باقی ماندہ جانوروں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ ان  چارصورتوں میں کون سی صورت شرعی ضرورت ہے  اور  کون سی نہیں ہے؟ ضرورت اورحوئجِ  اصلیہ  کے حولے سے شرعی معیار اور اصول کیا ہے ؟

3۔ زکوۃ کے باب میں جانور اگر تجارت کے لیے نہ ہوں، تو ان پر وجوب زکوۃ کے لیے ایک متعین اور مقرر نصاب ہے کہ اگر اونٹ کی اتنی تعد اد  ہو ، تو اس میں اتنی زکوۃ ہے ، اسی طرح بکری اور گائے وغیرہ کا بھی نصاب متعین ہے۔ کیا وجوب ِقربانی کے سلسلے میں بھی اگر جانور تجارت کے لیے نہ ہوں، تو ان کا نصاب مقرر ہےکہ مثلاًاگرپانچ اونٹ ہیں توقربانی واجب ہےاوراگرپانچ سےکم ہےتوواجب نہیں یا پھرنصاب مقررنہیں؟

وضاحت:گائےسےجودودھ حاصل کیاجاتاہےوہ کبھی صرف چائےکا کام آتاہےاورکبھی زیادہ ہوتاہےتواس سےدہی ، لسی اورگھی بنایاجاتاہے، بیچانہیں جاتا، الغرض ان دونوں جانوروں سےحاصل کردہ دودھ ضرورت سےزائد نہیں ہے۔

جواب

1- واضح رہے کہ   جس گائے کا دودھ گھریلو استعمال میں آتا ہو، وہ حوائج اصلیہ میں داخل ہے، لہذا مذکورہ عورت کی ملکیت میں   مذکورہ دوگائیں جن کی مجموعی مالیت چاندی کےنصاب سےزیادہ بنتی ہے، لیکن چوں کہ ان دونوں جانوروں سے دودھ  نکال کر گھر کے استعمال میں آتاہے، اس سےدہی ، لسی اورگھی بنایاجاتاہے،  لہذایہ دونوں گائیں حوائج اصلیہ میں داخل ہیں، ان کے علاوہ اگر  کوئی سونایاچاندی یانقدی رقم یاضرورت سےزائد سامان جس کی قیمت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ رہی ہو،نہ ہوتواس پر قربانی واجب نہیں ۔

2-حوائج اصلیہ میں ہر وہ چیز داخل ہےجو انسان کےزیر ِ استعمال ہو  اور زندگی بسر کرنےمیں  انسان کو اُس  کی ضرورت پڑتی ہو، البتہ زمانےاورشخص کےاعتبارسےضرورت مختلف ہوتی رہتی ہے؛ کیوں کہ فقہاءِ کرام نےحوائج اصلیہ کی جومثالیں دی ہیں وہ اپنےزمانےکےحالات کےپیشِ نظردی ہیں، چنانچہ آج کےدور میں اگر ایک شخص کےپاس دوگاڑیاں ہیں اوراسےبدل بدل کر استعمال کرتاہےتو یہ دونوں ضرورت میں داخل ہیں اس لیےکہ راجح قول کےمطابق ضروریات کوپوراکرنےکےلیےاشیاء کواپنےپاس رکھنےکی  شرعًاکوئی تعداد مقرر نہیں ۔

لہذاجوگائےدودھ پینےکےلیےیااس کےدودھ  سےگھی حاصل کرنےکےلیےرکھی جاتی ہیں وہ حوائجِ  اصلیہ میں داخل ہے، قربانی کےباب میں آدمی کےصاحبِ نصاب بننےمیں اس کا شمار نہیں ہوگا، البتہ  جوگائےاس لیےپالی جاتی ہیں  تاکہ جانور بڑھتےرہیں، توالد تناسل جاری ہو  اور بوقتِ  ضرورت خود گوشت کھانے کے لیے اپنے پاس جانور موجود ہوں تو یہ حوائج ِاصلیہ میں داخل نہیں، بلکہ قربانی کےباب میں آدمی کےصاحبِ نصاب بننےمیں اس کا شمار  ہوگا،  اگراس کی مالیت ساڑےباون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائےتوآدمی پر قربانی واجب ہوگی۔

3-قربانی کےباب میں ہروہ مال جوحوائج اصلیہ میں مشغول نہ  ہو چاہے نامی ہو یا غیرنامی ہو، ا س پر سال گزرا ہویانہ ہو ، ان سب کی مالیت اگرمالیت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کوپہنچ جائےتوایسےشخص پرقربانی واجب ہوگی، لہذا اگر کسی کےپاس ضرورت سےزائد (یعنی حوئج اصلیہ میں مشغول  نہ ہو) ایک گائےہواوراس کی مالیت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کوپہنچ رہی ہوتواس پرقربانی واجب ہوگی،  زکات کےباب کی طرح گائیوں کا 30 تک پہنچنا ضروری نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه."

(کتاب الزکاة، 262/2، ط:سعید)

درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"تجب على حر مسلم) و لو صغيرًا (له نصاب الزكاة فاضلًا ‌عن ‌حاجته ‌الأصلية و إن لم ينم) و قد مر بيانه.

(قوله: فاضلًا ‌عن ‌حاجته ‌الأصلية) أقول: و من حوائجه الأصلية حوائج عياله فلا بد أن يكون النصاب فاضلًا عن حوائجه و حوائج عياله و لم يبين المصنف مقدار الحاجة إشارة إلى ما عليه الفتوى من أن العبرة للكفاية من غير تقدير فيعتبر ما زاد على الكفاية له و لعياله، كذا في مختصر الظهيرية."

(کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 193/1، ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"و الشرط أن يكون فاضلًا ‌عن ‌حاجته ‌الأصلية، و هي مسكنه، و أثاث مسكنه و ثيابه و خادمه، و مركبه و سلاحه."

(کتاب الزکاة، الباب السابع في المصارف، 179/1، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"(و منها كون النصاب ناميًا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه."

(کتاب الزکاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 174/1، ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر

(قوله: و اليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا، لأن أحدها للبذلة والآخر للمهنة والثالث للجمع والوفد والأعياد، والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا، وبدار تسكنها مع الزوج إن قدر على الإسكان."

(‌‌كتاب الأضحية، 312/6، ط:سعید)

اللباب میں ہے:

"صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم) ولو صغيراً أو مجنوناً (إذا كان مالكاً لمقدار النصاب) من أي مال كان(فاضلاً عن مسكنه وثيابه وأثاثه) هو متاع البيت (وفرسه وسلاحه وعبيده للخدمة) ، لأنها مستحقة بالحاجة الأصليةكالمعدوم، ولا يشترط فيه النمو، ويتعلق بهذا النصاب؛ حرمان الصدقة، ووجوب الأضحية والفطرة. هداية."

(کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر، 158/1، ط:المکتبة العلمية)

بنایہ شرح الھدایہ میں ہے:

"صدقة الفطر واجبة على الحر المسلم إذا كان مالكا لمقدار النصاب فاضلا عن مسكنه وثيابه وأثاثه وفرسه وسلاحه وعبيده

(إذا كان مالكًا لمقدار النصاب) ش: من أي مال كان حال كون النصاب م: (فاضلًا عن مسكنه) ش: حتى لو كان له داران، دار يسكنها، والدار الأخرى لا يسكنها يؤاجرها أو لا يؤاجراها، تعتبر قيمتها حتى لو كانت قيمتها مائتي درهم تجب عليه صدقة الفطر، وكذلك لوكانت له دار واحد يسكنها ويفضل عن سكناه شيء فتعتبر قيمة الفاضل م: (و ثيابه و أثاثه و فرسه و سلاحه و عبيده) ش: كذلك في هذه الأشياء إن فضل عنه شيء تعتبر قيمة الفاضل."

(کتاب الزکاة، باب صدقة الفطر 481/3، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال: دودھ پینےکےلیےجوگائےرکھی جاتی ہے وہ حوئجِ اصلیہ سےزائد ہے یانہیں؟

جواب:وہ حوائج اصلیہ میں سے ہے۔"

(کتاب الزکاۃ، 204/6، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں