بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

قرض سے زیادہ روپے وصول کرنے کا حکم


سوال

آج سے 12 سال پہلے مجھ پر قرضہ چڑھ گیا تھا، میں بہت پریشان تھا، میں نے اپنی امی کو بتایا انہوں نے تین چار دن بعد مجھے بلایا اور مجھے پانچ لاکھ کیش دیے، میں نے ان سے پوچھا یہ پیسے کہاں سے آئے، انہوں نے کہا کہ اپنا گولڈ سیل کرا ہے ،پھر میں نے ان سے یہ پیسے واپس کرنے کا ایک سال کا ٹائم لیا ،لیکن میں مذکورہ عرصہ میں واپس نہیں کر سکا، اس سے اگلے سال میرے والد کا انتقال ہو گیا، اور ترکہ  کی تقسیم کا ذکر شروع ہو گیا، اور مزید ایک دو سال گزر گئے تو میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ یہ پیسے (جو میں نے دیے ہیں) مجھے اپنے حصے سے (جو والد کی میراث میں آپ کو ملے گا) دے دینا، اور اس بات پر مجھ سے لکھوا کےاور  اس پر میرے سائن لے لیے، مگر آج 12 سال گزر گئے، لیکن والد کا ترکہ  اب تک تقسیم نہیں ہوا، کیونکہ ترکہ  کے مکان میں والدہ اور میرے بھائی رہتے ہیں، اور اس ترکہ  کے مکان میں میری بہنیں بھی کئی سال  رہتی رہی ہیں۔

اب میری والدہ مجھ سے یہ کہہ رہی ہیں کہ میں نے جو گولڈ بیچ کر تمہیں رقم دی تھی جب بھی میراث (سائل کے والد کی میراث)تقسیم  ہو جائے تو اس وقت کے سونے کی قیمت کے حساب سے مجھےمیرے  پیسے دو، میں نے انہیں بہت سمجھایا کہ آپ نے تو مجھے پانچ لاکھ کیش دیا تھا اور بہت سمجھایا کہ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے، تو وہ کہہ رہی ہیں کہ اس  بارے میں فتویٰ لے لو، لہذا آپ میری رہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بیٹے (سائل )سے اپنےایک  گولڈ  سونے کےبقدر قیمت وصول کرے، بلکہ  وہ صرف اپنے  5 لاکھ روپے (جو بطور قرضہ سائل کو دیے تھے اسے ) لینے کا مطالبہ کرسکتی ہے، اس سے  زائد ایک روپیہ بھی لینے کی حقدار  نہیں ، اوراضافہ لینا سود ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب الربا هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية وبحر (خال عن عوض)."

(حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب الربا، (5/ 168)، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں