بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی کس پر واجب ہے ؟


سوال

قربانی کس پر واجب ہے ؟نیز یہ کہ جن پر قربانی واجب ہے ان کےلئے کن چیزوں کی ممنوعیت ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی  ہراس عاقل بالغ مقیم مسلمان مرداورعورت پر واجب ہے جونصاب کا مالک ہےیااس کی ملکیت میں ضرورت سے زائداتنا سامان ہے، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے۔

تفصیل یہ ہے کہ جس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایاساڑھے باون  تولہ چاندی یااس کی قیمت کے برابر رقم ہو،یارہائش کے مکان سے زائد مکانات یاجائیداد یں وغیرہ ہوں یاضرورت سے زائد گھر یلوسامان ہوجس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابرہویامال تجارت ،شیئرز وغیرہ ہوں تواس پر ایک حصہ قربانی کرنالازم ہے،قربانی کرنے والے پر کوئی چیز ممنوع نہیں ہے،البتہ اس کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحج کامہینہ  شروع ہوجانے کے بعد سے قربانی کرنے تک جسم کے غیرضروری بال اورناخن  نہ کاٹے،البتہ اگرغیر ضروری بال اورناخن کاٹنے کی مدت چالیس دن سے بڑھ رہی ہوتوپھر کاٹنا واجب ہوگا۔

مشکاۃ شریف میں ہے:

"عن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا ‌دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا وفي رواية فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفراوفي رواية من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي فلا يأخذ من شعره ولا من أظفاره."

(کتاب الصلاۃ، باب في الأُضحية، الفصل الأول، ج:1، ص:458، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

درمختار میں ہے:

"‌وشرائطها: ‌الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) (لا الذكورة فتجب على الأنثى)۔۔۔(قوله: ‌وشرائطها) أي شرائط وجوبها، ولم يذكر الحرية صريحا لعلمها من قوله واليسار، ولا العقل والبلوغ لما فيها من الخلاف۔۔۔(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا۔۔۔فمتى فضل نصاب تلزمه،ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا۔۔۔ والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا."

(كتاب الأُضحية، ج:6، ص:312، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں