مجھ سے کئی رشتے داروں نے مختلف اوقات میں لاکھوں کا قرض لیا ہے، جن کو کئی سال ہوگئے ہیں، لیکن واپسی دینے کا نام نہیں لے رہے، جب کہ غیروں کا قرض جلدی جلدی واپس کر لیتے ہیں، کیوں کہ وہ لوگ دروازے پر آکر واپسی کا تقاضہ کرتے ہیں، جب کہ میں مروت کی وجہ سے ہر کچھ عرصہ بعد پوچھتا ہوں، لیکن جواب ہوتا ہے کہ ابھی مجبوری ہے، آپ تو اپنے ہو، تھوڑا اور انتظار کرلو ! ایسے میں کیا اپنی کسی مجبوری کی جھوٹی کہانی سنا کررقم کا تقاضہ کرنا جائز ہے، کیوں کہ عام حالات میں تو واپسی کا دور دور تک امکان نہیں؟
واضح رہے کہ قرض کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور اس کا اپنی زندگی میں ادا کرنا لازم ہے، اور گنجائش کے باوجود ادا نہ کرنا اور ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں ہے کہ ابتداءِ اسلام میں رسول اللہ ﷺ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جو قرض ادا کیے بغیر انتقال کرجائے اور اپنے پیچھے اتنا ترکہ بھی نہ چھوڑے جس سے قرض ادا کیا جاسکے، اور کوئی شخص اس کی طرف سے قرض ادا کرنے کی ضمانت بھی نہ لے، بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمادیتے تھے کہ اپنے بھائی پر نماز پڑھ لو، بعد ازاں جب فتوحات ہوئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب اگر کوئی ایسا مقروض انتقال کرجائے جس کے قرض کی ادائیگی کا انتظام نہ ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمے ہے۔
لہذا سائل کے لیے اپناقرض وصول کرنے کے لئے جھوٹی کہانی سنانا جائز نہیں،کسی بھی جائز طریقہ سے اپنا قرضہ وصول کرسکتا ہے۔
صحیح البخاری میں ہے:
"عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه:أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بجنازة ليصلي عليها، فقال: (هل عليه من دين). قالوا: لا، فصلى عليه، ثم أتي بجنازة أخرى، فقال: (هل عليه من دين). قالوا: نعم، قال: (صلوا على صاحبكم). قال أبو قتادة: علي دينه يا رسول الله، فصلى عليه."
(كتاب الكفالة، باب: من تكفل عن ميت دينا، فليس له أن يرجع، ج:2، ص:803، رقم الحدیث:2173، ط:دار ابن كثير)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101999
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن